اعظم خان کو سپریم کورٹ سے راحت: مقدمہ کے ’عجیب و غریب حقائق‘ کی بنیاد پر عبوری ضمانت کی درخواست منظور

ہائی کورٹ کے ذریعہ فیصلہ محفوظ رکھنے کے 4 مہینے کے بعد اعظم خان نے سپریم کورٹ میں عبوری ضمانت کے لئے عرضی داخل کی تھی، ان کا الزام تھا کہ انتقامی سیاست کے سبب یوپی حکومت دانستہ طور پر تاخیر کر رہی ہے۔

اعظم خان، تصویر آئی اے این ایس
اعظم خان، تصویر آئی اے این ایس
user

قومی آواز بیورو

نئی دہلی: سماج وادی پارٹی (ایس پی) لیڈر اعظم خان کو سپریم کورٹ سے بڑی راحت ملی ہے۔ عدالت عظمیٰ نے زمین پر قبضے اور دھوکہ دہی کے مقدمے میں ان کی عبوری ضمانت کی درخواست منظور کر لی۔ یہ ضمانت آرٹیکل 142 کے تحت استحقاق کا استعمال کرتے ہوئے دی گئی ہے۔ وہیں، عدالت عظمیٰ نے ہدایت دی کہ وہ ٹرائل کورٹ میں دو ہفتوں کے اندر مستقل ضمانت کی درخواست پیش کر سکتے ہیں۔ مستقل ضمانت پر فیصلہ آنے تک عبوری ضمانت جاری رہے گی۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ کیس کے عجیب و غریب حقائق کے پیش نظر عبوری ضمانت دی جا رہی ہے۔

خیال رہے کہ اعظم خان فروری 2020 سے سیتاپور جیل میں قید ہیں۔ اس سے قبل منگل کے روز سپریم کورٹ نے ایس پی لیڈر کی عبوری ضمانت کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔ یوپی حکومت نے عدالت سے کہا تھا، ’’درخواست گزار اور معاملے کے تفتیشی افسر کو بھی دھمکی دی گئی تھی۔ جب اعظم خان کا بیان ریکارڈ کیا جا رہا تھا، اس وقت بھی تفتیشی افسر کو دھمکی دی گئی تھی۔ اعظم خان لینڈ مافیا اور عادی مجرم ہیں۔‘‘


دوسری جانب ارنب کیس کا حوالہ دیتے ہوئے عدالت میں کہا گیا کہ دونون مقدمات کی نوعیت ایک جیسی ہے، مگر اعظم خان کے خلاف مختلف کیسز میں ایف آئی آر درج ہیں۔ جبکہ اعظم کے وکیل کپل سبل نے کہا کہ اعظم پچھلے دو سال سے جیل میں قید ہیں، تو دھمکی کی بات کہاں آتی ہے؟ نیز یوپی حکومت ان کے مؤکل کو سیاسی بد دیانتی کا شکار بنا رہی ہے۔

گزشتہ سماعت کے دوران عدالت نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ جب تمام مقدمات میں ضمانت ہو گئی تو اعظم کے خلاف نیا مقدمہ کیسے درج کر لیا گیا۔ کیا یہ محض اتفاق ہے یا کچھ اور؟ یوپی حکومت کو اس پر جواب داخل کرنا چاہئے۔ سپریم کورٹ نے ایس پی لیڈر اعظم خان کی ضمانت پر فیصلے کی عدم تعمیل پر بھی برہمی کا اظہار کیا تھا۔


اس سے قبل سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ اعظم خان کو 87 میں سے 86 مقدمات میں ضمانت مل چکی ہے۔ 137 دن گزر گئے، ایک کیس کا فیصلہ نہیں ہوا۔ یہ انصاف کا مذاق ہے۔ ہائی کورٹ نے فیصلہ نہ کیا تو ہم مداخلت کریں گے۔ جسٹس ایل ناگیشور راؤ اور جسٹس بی آر گاوائی کی بنچ نے یہ سماعت کی تھی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔