آدھار کا ڈیٹا انتخابات پر اثر ڈال سکتا ہے، سپریم کورٹ کا اظہار تشویش
چیف جسٹس دیپک مشرا کی قیادت والی آئینی بنچ نے معاملہ کی سماعت کے دوران کہا کہ ملک میں کوئی ڈیٹا سیکورٹی قانون نہیں ہے، ایسے حالات میں یہ کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ لوگوں کا ڈیٹا محفوظ ہے!
نئی دہلی: سرکاری خدمات کے لئے آدھار کو لازمی بنائے جانے کے خلاف عرضیوں کی سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے تشویش کا اظہار کیا۔ عدالت عظمیٰ نے سنجیدہ تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ آدھار ڈیٹا لیک ہونے سے انتخابات کے نتائج متاثر ہو سکتے ہیں۔ عدالت نے حکومت سے آدھار کو تمام خدمات کے لئے لازمی بنانے کی کوئی ایک بہتر وجہ بتانے کو کہا۔
چیف جسٹس دیپک مشرا کی صدارت والی پانچ رکنی آئینی بنچ نے ملک میں معلومات کی حفاظت کا قانون نہ ہونے پرسوال اٹھائے۔ بنچ نے کہا کہ جب ملک میں ڈیٹا کی حفاظت کا قانون نہیں ہے تو ایسے میں یہ کہنا کہ لوگوں کا ڈیٹا محفوظ ہے، کہاں تک مناسب ہے؟۔
عدالت عظمی نے سماعت کے دوران آدھار کے ڈیٹا کا انتخابات میں استعمال کئے جانے پر تشویش ظاہر کی۔ آئینی بنچ کے ایک رکن جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے کہا کہ یہ حقیقی خدشہ ہے کہ دستیاب اعداد و شمار کسی ملک کے انتخابات کے نتائج کو متاثر کر سکتے ہیں اور اگر ایسا ہوتا ہے، تو کیا جمہوریت بچ پائے گی؟
انڈین یونیک آئیڈنٹیٹی اتھارٹی (یو آئی اے ڈی آئی) کے وکیل نے دلیل دی کہ ٹیکنالوجی کی ترقی ہو رہی ہے اور ہندوستان کے پاس تکنیکی ترقی کی اپنی حدود ہیں۔ اس پر جسٹس چندرچوڑ نے کہا کہ ’’علم کے محدود ہونے کی وجہ سے ہم حقیقت سے آنکھ موند کرنہیں رہ سکتے، کیونکہ ہم ایسے قانون کو لاگو کرنے جارہے ہیں جو مستقبل کو متاثر کرے گا۔‘‘ يو آئی ڈی آئی کی جانب سے کہا گیا ہے کہ آدھار کے تحت ڈیٹا کی وصولی کوئی ایٹم بم نہیں ہے۔
گزشتہ دنوں غلط طریقہ سے آدھار کا ڈیٹا حاصل کرنے اور لیک ہونے کے کئی معاملات سامنے آ چکے ہیں۔ اسی وجہ سے آدھار کے ڈیٹا کی حفاظت کے حوالہ سے سوالات کھڑے ہونے لگے ہیں۔ جنوری میں انگریزی روزنامہ ’دی ٹربیون‘ نے محض 500 روپے میں آدھار حاصل کرنے کی رپورٹ شائع کی تھی۔
اس کے بعد مرکزی حکومت اور یو آئی اے ڈی آئی نے ڈیٹا کی حفاظت کے حوالہ سے مزید سخت قدم اٹھانے کی بات کہی تھی۔ اسے لے کر یو آئی ڈی اے آئی کے سی ای او اجے بھوشن پانڈے سپریم کورٹ میں پریزینٹیشن بھی دے چکے ہیں۔ لیکن ان کی پریزینٹیشن میں بھی آدھار کی کئی خامیوں کی طرف اشارہ کیا گیا تھا۔
(یو این آئی ان پٹ کے ساتھ)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 18 Apr 2018, 7:04 AM