سپریم کورٹ نے گجرات اور مرکزی حکومت کو آخر کیوں لگائی پھٹکار؟
سپریم کورٹ نے اپنے 4 اکتوبر کے فیصلے میں کووڈ متاثرین کے اہل خانہ کے لیے 50 ہزار روپے کی امدادی رقم کو منظوری دی تھی، جس کی سفارش ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے کی تھی۔
سپریم کورٹ نے گجرات حکومت کو اپنی منظوری عمل سے بھٹکنے اور اس کی جگہ کووڈ-19 کے شکار لوگوں کے کنبہ کو امدادی رقم تقسیم کے لیے ایک جانچ کمیٹی تشکیل دینے پر پھٹکار لگائی ہے۔ عدالت عظمیٰ نے مرکز سے کووڈ اموات کے لیے امدادی رقم تقسیم کرنے کے متعلق مختلف ریاستی حکومت سے ریکارڈ ڈاٹا لانے اور شکایت ازالہ کمیٹیوں کی تشکیل کے بارے میں بھی جانکاری دینے کو کہا ہے۔
سپریم کورٹ نے اپنے 4 اکتوبر کے فیصلے میں کووڈ متاثرین کے اہل خانہ کے لیے 50 ہزار روپے کی امدادی رقم کو منظوری دی تھی، جس کی سفارش ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے کی تھی۔ یہ حکم ایڈووکیٹ گورو کمار بنسل کی عرضی پر پاس کیا گیا۔ گجرات حکومت کی نمائندگی کر رہے سالیسیٹر جنرل تشار مہتا نے جسٹس ایم آر شاہ اور جسٹس بی وی ناگ رتنا کی بنچ کے سامنے کہا کہ عدالت عظمیٰ کی ہدایت کے بعد ایک ترمیم شدہ تجویز جاری کی گئی ہے۔ عدالت عظمیٰ نے 18 نومبر کو اخذ کیا کہ جانچ کمیٹی اپنی ہدایات کو ختم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
مہتہ نے زور دے کر کہا کہ ترمیم شدہ تجویز میں بھی کچھ تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ بنچ نے جوابی حملہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’پہلا نوٹیفکیشن کس نے پاس کیا؟ کسی کو ذمہ داری لینی چاہیے۔‘‘ بنچ نے کہا کہ وہ اس کی ذمہ داری لیتی ہے۔ حالانکہ متعلقہ افسر کو ہی ذمہ دار ٹھہرایا جانا چاہیے۔ سماعت کے اس موڑ پر مہتا نے بنچ کو مطلع کیا کہ ایڈیشنل چیف سکریٹری ورچوئل سماعت میں شامل ہوئے۔ بنچ نے سکریٹری سے پوچھا کہ ’’اس کا مسودہ کس نے تیار کیا؟ اسے کس نے منظوری دی؟ یہ کس کے دماغ کی پیداوار ہے؟‘‘
انھوں نے جواب دیا کہ محکمہ میں عزائم کا مسودہ تیار کیا گیا تھا اور آخر میں اہل افسر نے منظوری دے۔ بنچ نے ایک واضح سوال پوچھا کہ کہ ’’اہل افسر کون ہے؟‘‘ انھوں نے کہا کہ اہل افسر وزیر اعلیٰ ہیں۔ بنچ نے پھر کہا کہ ’’آپ کے وزیر اعلیٰ کچھ بھی نہیں جانتے۔ محترم سکریٹری، آپ کس لیے ہیں؟‘‘ آگے کہا گیا کہ یہ معاملے کو زیر التوا کرنے اور گڑبڑانے کا صرف ایک نوکرشاہی کوشش ہے۔ مہتا نے معاوضے کے تعلق سے کچھ فرضی دعووں کا حوالہ دیا۔ حالانکہ بنچ بضد رہی اور گجرات حکومت کو پھٹکارتی رہی۔ بنچ نے پوچھا ’’جانچ کمیٹی سے سرٹیفکیٹ ملنے میں کیا ایک سال لگے گا؟‘‘
یہ بھی پڑھیں : چائے سے گرم کیتلی کے آنسو!... اعظم شہاب
مہتا نے واضح کیا کہ ایڈیشنل سکریٹری بنچ کے اس سوال کا جواب دے رہے تھے کہ دستخط کرنے کا آخری اختیار وزیر اعلیٰ کو ہے۔ بنچ نے کہا کہ اگر فرضی دعوے کیے گئے تو یہ حقیقی لوگوں کے لیے رخنہ نہیں ہو سکتا۔ مہتا نے عدالت عظمیٰ کو یقین دلایا کہ اس کی فکر کو دور کیا جائے گا اور عزائم میں ترمیم کی جائے گی اور عدالت سے معاملے کو آئندہ پیر کے لیے فہرست بند کرنے کی گزارش کی۔ بنچ نے گجرات میں کووڈ-19 سے ہوئی اموات کے معاوضے کے بارے میں بھی جانکاری مانگی۔ عدالت عظمیٰ نے معاملے میں آگے کی سماعت کے لیے 29 نومبر کی تاریخ طے کی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 22 Nov 2021, 7:11 PM