سلطان پور: مورتی وِسرجن میں ہوئے ہنگامہ کے بعد یکطرفہ کارروائی پر اٹھ رہی انگلی، کانگریس رکن پارلیمنٹ نے بھی اٹھایا سوال

راجیہ سبھا رکن عمران پرتاپ گڑھی کا کہنا ہے کہ پولیس کا رخ پوری طرح سے یکطرفہ دکھائی دے رہا ہے، تھانہ انچارج کھلے عام اسٹیج سے ایک فریق کو دھمکی دے رہا ہے۔

تصویر بذریعہ آس محمد کیف
تصویر بذریعہ آس محمد کیف
user

آس محمد کیف

درگا پوجا کے دوران مورتی وِسرجن جلوس میں فرقہ وارانہ تشدد بھڑکنے کے معاملے میں پولیس کی کارروائی کٹہرے میں آ گئی ہے۔ کانگریس کے راجیہ سبھا رکن عمران پرتاپ گڑھی اس یکطرفہ کارروائی کے خلاف لگاتار آواز اٹھا رہے ہیں۔ پولیس نے اس تشدد کے الزام میں جن 32 لوگوں کو گرفتار کیا ہے، وہ سبھی مسلمان ہیں۔ انتظامیہ نے جائے حادثہ کے پاس موجود ایک مدرسے اور چار مکانات پر نوٹس چسپاں کیا ہے اور نوٹس میں مدرسہ اور گھروں سے جڑے لوگوں سے کہا گیا ہے کہ تشدد میں ہوئے نقصان کا ازالہ کریں ورنہ ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ یہ وہی معاملہ ہے جس میں ایک انسپکٹر تھانہ انچارج کی ویڈیو جائے حادثہ کے پاس کی وائرل ہوئی تھی جس میں وہ خاص طبقہ کے لوگوں کو مٹی میں ملا دینے اور گھر پر بلڈوزر چلوا دینے کی دھمکی دے رہے ہیں۔

واضح رہے کہ یہ معاملہ سلطان پور کے بلدی رائے تھانہ علاقہ کے تحت ابراہیم پور گاؤں کا ہے۔ یہاں 10 اکتوبر کو پیر کی شام کو درگا کی مورتی وِسرجن 'شوبھا یاترا' ایسولی گھاٹ جا رہی تھی۔ اس دوران جب مورتی قادری مسجد کے سامنے پہنچی تو ڈی جے بجانے کو لے کر دو فریقین میں تنازعہ ہو گیا۔ ہنگامہ پر مشتمل کئی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہیں، جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کس طرح سے ایک طبقہ کے گھروں، دکانوں اور مذہبی مقامات پر توڑ پھوڑ کی گئی۔ درج ایف آئی آر کے مطابق اس دوران پتھراؤ اور آگ زنی ہوئی جس میں ایک سپاہی سمیت آٹھ لوگ زخمی ہو گئے۔


اس ہنگامہ کے بعد بلدی رائے تھانہ انچارج امریندر سنگھ نے شوبھا یاترا کے اسٹیج پر آ کر ایک طبقہ کے خلاف متنازعہ بیان دیا۔ بلدی رائے تھانہ انچارج امریندر سنگھ نے کہا کہ اس یاترا میں جس کسی بھی شخص نے جرأت کی ہے، میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں ان کو میں مٹی میں ملا دوں گا، ان کے گھر بلڈوزر سے گریں گے۔ اس بیان پر وہاں موجود لوگوں نے خوب نعرہ بازی کی اور جئے شری رام کا نعرہ بھی لگایا۔ اسٹیج سے ہی تھانہ انچارج نے چن چن کر مارنے کی دھمکی بھی دی۔

موصولہ اطلاعات کے مطابق پولیس نے اس کے بعد اپنی طرف سے مجموعی طور پر چار ایف آئی آر درج کیں۔ الزام ہے کہ پولیس نے یکطرفہ کارروائی کرتے ہوءے 51 نامزد سمیت 30 سے 35 نامعلوم لوگوں کے خلاف کیس درج کیا ہے۔ پولیس نے تعزیرات ہند کی دفعات 147، 148، 149، 109، 332، 353، 295اے، 427، 307، 435، 436 وغیرہ کے تحت مقدمہ درج کیا ہے۔ اسی معاملے میں بلدی رائے پولیس نے 32 لوگوں کو گرفتار کر جیل بھیج دیا ہے۔ پولیس کے ذریعہ گرفتار کر کے جیل بھیجے گئے سبھی لوگ مسلم ہیں۔ الزام ہے کہ گرفتار کیے گئے لوگوں میں مدرسہ کے منتظم اور اس مدرسہ کے طالب علم بھی شامل ہیں۔


راجیہ سبھا رکن عمران پرتاپ گڑھی کا کہنا ہے کہ پولیس کا رخ پوری طرح سے یکطرفہ دکھائی دے رہا ہے۔ تھانہ انچارج کھلے عام اسٹیج سے ایک فریق کو دھمکی دے رہا ہے۔ مسلم فریق کے لوگوں کی رپورٹ تک نہیں لکھی گئی۔ ان کی خواتین تک نے خوف سے گاؤں چھوڑنے کا ارادہ کر لیا ہے۔ مورتی وِسرجن کے دوران مسجد کے باہر ڈی جے پر قابل اعتراض گانا بجانے پر ہنگامہ ہوا تو کارروائی یکطرفہ کیوں ہوئی! دونوں فریقین کے غیر سماجی عناصر کے خلاف یکساں کارروائی ہونی چاہیے تھی۔ لیکن اتر پردیش کی یوگی حکومت یکطرفہ کارروائی ہی کر رہی ہے۔

سلطان پور: مورتی وِسرجن میں ہوئے ہنگامہ کے بعد یکطرفہ کارروائی پر اٹھ رہی انگلی، کانگریس رکن پارلیمنٹ نے بھی اٹھایا سوال

حالانکہ ہندو فریق کا الزام ہے کہ مسلم فریق نے مورتی وِسرجن جلوس میں رکاوٹ پیدا کی ہے۔ ہندو فریق کا کہنا ہے کہ ایک مورتی کے پیچھے کئی مورتیاں تھیں اور ڈی جے کی گاڑی تھی۔ یہ سبھی دھیرے دھیرے آگے بڑھ رہی تھیں تبھی مسجد سے باہر نکلے لوگوں نے ڈی جے والی گاڑی آگے بڑھانے کو کہا۔ شوبھا یاترا میں موجود لوگوں نے کہا کہ مورتی آگے بڑھ جائے پھر آگے بڑھا دیں گے۔ اس کے بعد کہا سنی ہوئی اور تنازعہ شروع ہو گیا۔ مسجد کے آس پاس سے پتھر بازی ہونے لگی اور پھر سب ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑے۔


اس پورے معاملے میں سلطان پور کے محمد عبدالقاسم کہتے ہیں کہ ابراہیم پور میں مورتی وِسرجن کے دن اذان کے وقت ڈی جے بج رہا تھا۔ وِسرجن کے لیے مورتی جا رہی تھی لیکن مسجد کے پاس روک کر ایک گھنٹے تک ڈی جے بجایا گیا تو اس پر مسلم لوگوں نے کہا کہ بھائی یہاں سے آگے کر لو، ہم لوگ نماز پڑھ لیں۔ لیکن کوئی نہیں مانا۔ مسجد کے سامنے جلوس ایک گھنٹے سے زیادہ وقت تک کھڑا رہا۔ لوگ ہنگامہ کرتے رہے، ڈی جے پر اشتعال انگیز نعرے اور گانے بج رہے تھے۔ اس کے بعد دونوں فریقین میں بحث شروع ہو گئی جس کے بعد تنازعہ ہو گیا۔

اتنا ہی نہیں، سلطان پور ضلع انتظامیہ نے جائے واقعہ ابراہیم پور میں مدرسہ منتظم سمیت پانچ لوگوں کو غیر قانونی قبضہ کرنے کے الزام میں نوٹس بھیج دیا ہے۔ ساتھ ہی لاکھوں روپے جرمانہ ادا کرنے کی ہدایت دی ہے۔ جن لوگوں کو بلڈوزر چلانے کا نوٹس جاری ہوا ہے ان میں اختر، عظیم الدین، شمس الدین اور مدرسہ کے منیجر کا نام بھی شامل ہے۔ غیر قانونی تجاوزات یعنی قبضہ کا نوٹس پانے والوں میں ایک ہندو شری رام یادو کا کنبہ بھی شامل ہے۔ انتظامیہ نے سبھی کو تین دنوں کے اندر جواب داخل کرتے ہوئے تجاوزات ہٹانے اور جرمانہ بھرنے کی تنبیہ کی ہے۔


نوٹس کے مطابق اختر کے تین منزلہ بنے مکان سے تجاوزات ہٹانے کی ہدایت ہے۔ انھیں ایک لاکھ 75 ہزار 500 روپے نقصان کا ازالہ کرنا ہے۔ عظیم الدین کے مکان کے ساتھ باؤنڈری وال کا حصہ غیر قانونی بتایا گیا ہے اور انھیں 2 لاکھ 16 ہزار نقصان جمع کرنے کی ہدایت ہے۔ مدرسہ جامع مصطفیٰ قادریہ کے منیجر کے رسوئی گھر اور مکان کو غیر قانونی بتایا گیا ہے۔ ان سے 2 لاکھ 29 ہزار 500 روپے وصولے جائیں گے۔ شمس الدین کے پاس بھی باؤنڈری کی دیوار کو غیر قانونی بتاتے ہوئے نوٹس پہنچا ہے۔ انھیں 2 لاکھ 79 ہزار کا جرمانہ دینا ہے، اور شری رام یادو کے کچے مکان کو غیر قانونی بتاتے ہوئے ایک لاکھ 12 ہزار 500 روپے جرمانہ ادا کرنے کو کہا گیا ہے۔

جمعیۃ علما ہند نے بھی اس واقعہ پر پولیس کے رخ کی تنقید کی ہے۔ اس ادارہ سے منسلک مولانا اسلام کہتے ہیں کہ شروعات کسی بھی طرف سے کی جاتی ہو، لیکن جب بات بڑھتی ہے تو دونوں طرف سے ہی بڑھتی ہے۔ ہنگامہ کے بعد مسجد کی چٹائیاں جلائی گئیں، مسجد کی ٹوٹیاں توڑی گئیں، مدرسہ میں بھی نقصان پہنچایا گیا۔ پولیس کے پہنچنے کے بعد معاملہ ٹھنڈا ہوا، لیکن اب جو کارروائی ہو رہی ہے اس میں جو 51 لوگوں کے خلاف کارروائی ہو رہی ہے، وہ سبھی مسلم ہیں۔ مسلمانوں پر ظلم کیا جا رہا ہے۔ دونوں طرف سے کارروائی ہونی چاہیے، ہم انصاف چاہتے ہیں۔ جو بھی باہر نکلتا ہے، پولیس اسے پکڑ لیتی ہے۔


سلطان پور کے ایسولی سے سماجوادی پارٹی رکن اسمبلی طاہر خان نے مورتی وِسرجن جلوس کے دوران پیش آئے تشدد واقعہ کو منصوبہ بند سازش قرار دیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ مذہبی مقام پر توڑ پھوڑ ہوئی ہے، گھروں کو جلایا گیا ہے، گھروں میں لوٹ پاٹ کی گئی ہے، دکانوں کے تالے توڑے گئے ہیں، آخر یہ لوگ کون تھے! یہ منصوبہ بند سازش تھی۔ لوگوں نے مذہبی مقام کو توڑنے کی کوشش کی ہے، خواتین کے ساتھ بدسلوکی کی ہے، بزرگوں کو مارا ہے۔ چاہے وہ بھاڑے میں لائے گئے جرائم پیشے ہوں یا قصوروار افسر، ایسے لوگوں کے خلاف کارروائی کی جانی چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ جن لوگوں نے نظامِ امن کو خراب کرنے کی سازش تیاری کی ہے، وہ چاہے جس ذات اور مذہب کے ہوں، ان کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہیے۔ طاہر خان نے یہ بھی کہا کہ بلدی رائے تھانہ انچارج نے جو اشتعال انگیز بیان دیا ہے، اس کے بعد بھی ماحول خراب ہوا۔ سچائی یہ ہے کہ تھانہ انچارج کی لاپروائی کا ہی یہ نتیجہ ہے۔ طاہر خان نے بلدی رائے تھانہ انچارج کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ یکطرفہ کارروائی کی مخالفت میں ابراہیم پور گاؤں میں درجنوں کی تعداد میں مسلم خواتین جمعرات کی صبح سڑک پر اتر آئیں۔ خواتین نے پولیس پر الزام عائد کیا ہے کہ ہمارے لوگوں کو گاؤں سے نکلنے نہیں دے رہے ہیں۔ گاؤں کے لوگ کام پر جا رہے ہیں تو پولیس پٹائی کر رہی ہے۔ ایسے حالات میں بچے بھوک سے تڑپ رہے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔