مرزا محمد اشفاق: ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے
شہر لکھنؤ کے مشہور و مقبول خطیب و ذاکر مولانا مرزا محمد اشفاق کے انتقال نے ایک ایسا ذاکر اور نفیس انسان کھو دیا جس پر جتنا افسوس کیا جائے کم ہے۔
لکھنؤ: شہر لکھنؤ کے مشہور و مقبول خطیب و ذاکر مولانا مرزا محمد اشفاق کے انتقال نے ایک ایسا ذاکر اور نفیس انسان کھو دیا جس پر جتنا افسوس کیا جائے کم ہے۔ مرزا محمد اشفاق شوقؔ لکھنوی کی ابتدائی تعلیم لکھنؤ کے مشہور مدرسہ سلطان المدارس میں ہوئی تھی اور انہوں نے خود کو ایسا ڈھال لیا تھا کہ دنیا کے کونے کونے میں ان کی پذیرائی اور اہمیت بہت زیادہ تھی۔ اپنے بڑے بھائی خطیب اکبر مولانا مرزا محمد اطہر کی رہنمائی میں اشفاق صاحب نے علم و کمال کی ان منازل پر اپنی جگہ بنا لی تھی جو کسی بھی خطیب یا ذاکر کے لئے انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔
مرزا محمد اشفاق نے لڑکپن سے ہی ذاکری کے وہ جوہر دکھانے شروع کر دیئے تھے کہ عوام الناس عش عش کر اٹھتے۔ مجالس میں میر انیس کے مراثی کے بندوں کی پیشکش ان کا طرحئ امتیاز تھا۔ مرحوم کی یاداشت ایسی کہ کیا مجال کہ میر انیسؔ کے کسی مصرعہ کو نقل کرنے میں لغزش ہوجائے۔ مرزا اشفاق کو سب سے زیادہ عشق ہی میر انیسؔ تھا اور یہی وجہ تھی کہ نثر کے ساتھ ساتھ وہ میر انیس کے بندوں کوزیادہ استعمال کرتے تھے۔
خاص لکھنوی ادا والے مرزا محمد اشفاق کی رفتار، گفتار، نشست و برخاست سب ہی لکھنوی تہذیب کا ایک نمونہ تھے۔ نجی محفلوں اور صحبتوں میں ان کا طرز تکلم مجلس نشینوں کو بھا جاتا تھا۔ نرم گفتار، مرنجاں مرنج اور با محاورہ زبان سب کا دل جیت لیتی تھی۔ مزاج میں شرافت، تجزیے میں متانت اور کلام میں اعلی قدروں کے حوالے یہ ثابت کرتے تھے کہ انہوں نے اعلی تعلیم اور بہترین تربیت کا خاصہ فائدہ اٹھایا ہے۔ نہ کسی کا دل دکھانا اور نہ کسی پر طنز کرنا ان کی خطابت کا جز تھا، وہ اتحاد بین المسلیمین کے حامی اور عاشق خانوادہ رسولﷺ تھے۔ ہمیشہ ایسی باتوں سے اجتناب برتتے تھے جو کسی کے دل کو ٹھیس پہنچائے مگر اپنی مدبرانہ حکمت سے اپنی بات اور حق کی عملداری کا پورا خیال رکھتے تھے۔ مجالس میں سماعت کرنے والوں کو ابتدا سے انتہاء تک باندھے رہتے تھے یہ ان کا حسن کلام ہی تھا کہ لوگوں پر ان کی زبان اور بیان کا جادو سر چڑھنے لگتا۔
لکھنوی تہذیب اور شہر کی ثقافت کی بقا کے لئے ہمیشہ گفتگو کرتے، ان کو مٹتی ہوئی تہذیب اور فنا ہو رہے تمدن کا خیال رہتا تھا، شہر کی شاہی عمارتوں اور اس کے ماضی کا خزانہ ان کے سینے میں دفن تھا، مجلس سماعت کرنے والوں کو بسا اوقات ان حقائق سے آگاہ بھی کرتے رہتے تھے۔
مرزا محمد اشفاق شوقؔ لکھنوی کا ادبی ذوق بہت بلند تھا وہ کثیر المطالعہ تھے اور ان کو اردو کے ساتھ ساتھ فارسی زبان پر بھی دسترس حاصل تھی۔ شاعری کی ہر صنف میں انہوں نے طبع آزمائی کی اور خوب کی۔ سلام و نوحہ، نثر اور نظم، مسدس و مخمس، قصیدے اور نظموں سے بھی انہوں نے سماج کو آئینہ دکھایا تھا۔ شوقؔ لکھنوی کا مجموعۂ قصائد ’’چراغوں ‘‘میں2006 میں شائع ہو چکا ہے۔
فارسی پر عبور حاصل ہونے کی وجہ سے انہوں نے اردو کی تحریروں کو زیبائش بخشی تھی۔ ایک ایسا ذاکر مجلس، خطیب، شاعر مدتوں بعد پیدا ہوتا ہے جو کم عرصہ میں پورے بر صغیر ہند و پاک میں اپنی شہرت سے مقبول عام ہو جائے۔ وہ آل انڈیا شیعہ پرسنل لا بورڈ کے صدر بھی تھے اور اتحاد بین المسلیمین کے حامی تھے۔ انہوں نے بابری مسجد کی ’جنگ‘ میں مسلمانوں کے دیگر فرقوں اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے موقف سے کبھی انحراف نہیں کیا بلکہ اس تحریک کے شانہ بہ شانہ چلے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔