کشمیر میں ہڑتال اور مواصلاتی خدمات پر پابندی 30 ویں دن میں داخل
وادی کے سبھی دس اضلاع میں مواصلاتی خدمات گزشتہ 30دنوں سے معطل ہیں۔ اگرچہ وادی کے بیشتر قصبوں میں لینڈ لائن فون خدمات بحال کی جاچکی ہیں تاہم سری نگر کے لال چوک اور پائین شہر میں یہ خدمات ہنوز معطل ہیں۔
سری نگر: وادی کشمیر میں جاری ہڑتال اور مواصلاتی خدمات پر پابندی منگل کے روز 30 ویں دن میں داخل ہوگئی۔ فون اور انٹرنیٹ خدمات کی معطلی کی وجہ سے طلباء، روزگار کے متلاشی نوجوان اور پیشہ ور افراد سخت پریشان ہیں۔ ملکی و غیر ملکی یونیورسٹیوں میں داخلے کے خواہشمند طلباء اور روزگار ڈھونڈنے میں مصروف نوجوانوں کو آن لائن فارم جمع کرنے کے لئے جموں یا ملک کی دوسری ریاستوں کا رخ کرنا پڑ رہا ہے۔ پیشہ ور افراد کی ایک بڑی تعداد جن کا کام کاج انٹرنیٹ پر منحصر ہے پہلے ہی کشمیر چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔
وادی کے سبھی دس اضلاع میں مواصلاتی خدمات گزشتہ 30 دنوں سے معطل ہیں۔ اگرچہ وادی کے بیشتر قصبوں میں لینڈ لائن فون خدمات بحال کی جاچکی ہیں تاہم سری نگر کے لال چوک اور پائین شہر میں یہ خدمات ہنوز معطل ہیں۔ حکومت کے ترجمان روہت کنسل کا کہنا ہے کہ سری نگر میں میڈیا دفاتر کے فون و انٹرنیٹ کنکشن بحال کرنے کے معاملے پر غور کیا جائے گا۔
موصولہ اطلاعات کے مطابق وادی بھر میں منگل کے روز مسلسل 30 ویں روز بھی دکانیں اور تجارتی مراکز بند رہے جبکہ سڑکوں پر پبلک ٹرانسپورٹ کی آمدورفت معطل رہی۔ تاہم سری نگر کے سول لائنز و بالائی شہر اور مختلف اضلاع کو سری نگر کے ساتھ جوڑنے والی سڑکوں پر بڑی تعداد میں نجی گاڑیاں چلتی ہوئی نظر آرہی ہیں۔
وادی کے تقریباً تمام تعلیمی اداروں میں درس وتدریس کی سرگرمیاں معطل ہیں۔ اس کے علاوہ سرکاری دفاتر، بنکوں اور نجی دفاتر میں جاری ہڑتال اور مواصلاتی بندش کی وجہ سے معمول کا کام کاج بری طرح متاثر ہے۔ اس دوران دسویں اور بارہویں جماعت کے طلباء نے اُن سرکاری احکامات پر ناراضگی کا اظہار کیا ہے جن کے مطابق طلباء کو 10 ستمبر تک امتحانات کے فارم داخل کرنے ہیں۔ طلباء کا کہنا ہے کہ انہیں صرف 30 سے 40 فیصد نصاب پڑھایا گیا ہے اور سو فیصد نصاب کو پڑھائے بغیر امتحانات میں بیٹھنے پر مجبور کرنا طلباء کے تعلیمی کیریئر کے ساتھ کھلواڑ ہے۔
انتظامیہ کے ایک عہدے دار نے بتایا کہ وادی میں عائد پابندیوں میں نرمی لانے اور لینڈ لائن و موبائل فون خدمات کی بحالی کا سلسلہ جاری ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وادی کے 90 فیصد علاقے ایسے ہیں جہاں کوئی پابندی عائد نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پتھراؤ کے واقعات میں ہر گزرتے دن کے ساتھ کمی آرہی ہے اور لوگ بھی اپنا کام کاج بحال کرنے لگے ہیں۔
یو این آئی کے ایک نامہ نگار جس نے منگل کی صبح پائین شہر کے مختلف علاقوں کا دورہ کیا کے مطابق پائین شہر میں لوگوں کی آزادانہ نقل وحرکت پر کوئی پابندیاں عائد نہیں ہیں تاہم لوگوں کو ایک جگہ جمع ہونے سے روکنے اور پتھراؤ کرنے والے نوجوانوں سے نمٹنے کے لئے سیکورٹی فورسز کی بھاری نفری تعینات رکھی گئی ہے۔
ادھر سول لائنز اور بالائی شہر میں منگل کے روز بھی سڑکوں پر اچھی خاصی تعداد میں نجی گاڑیاں چلتی ہوئی نظر آئیں۔ تاہم پبلک ٹرانسپورٹ 30 ویں دن بھی سڑکوں سے غائب رہا۔ سول لائنز اور بالائی شہر میں کسی بھی طرح کے احتجاجی مظاہرے کو ناکام بنانے کے لئے بڑی تعداد میں فورسز اہلکار تعینات کیے گئے ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ وادی میں کسی بھی علاحدگی پسند یا دوسری تنظیم نے ہڑتال کی کال نہیں دی ہے بلکہ جس ہڑتال کا سلسلہ جاری ہے وہ غیر اعلانیہ ہے۔ انتظامیہ نے کشمیر میں سبھی علاحدگی پسند قائدین و کارکنوں کو تھانہ یا خانہ نظر بند رکھا ہے۔ اس کے علاوہ بی جے پی کو چھوڑ کر ریاست میں انتخابات میں حصہ لینے والی جماعتوں کے لیڈران کو سرکاری رہائش گاہوں، اپنے گھروں یا سری نگر کے شہرہ آفاق ڈل جھیل کے کناروں پر واقع سنٹور ہوٹل میں نظر بند رکھا گیا ہے۔ انہیں ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کی بھی اجازت نہیں دی جاتی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔