رونگٹے کھڑے کرنے والی ہے ’شرمک ٹرین‘ میں اموات کی داستانیں

یہ سچ ہے کہ حکومت کبھی اس بحران میں ریلوے کی بے حسی اور بدانتظامی سے لوگوں کی موت کا اعتراف نہیں کرنے والی، لیکن جن کی موت ہوئی ہے ان کی لاشیں سچ جانتی ہیں اور چیخ چیخ کر حکومت سے سوال کر رہی ہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

ششر

یہ بھلے ہی حکومت کے لیے محض گنتی ہو، میڈیا کے لیے خبر اور سیاسی لیڈروں کے لیے بیانوں کی کھیتی کی کھاد، لیکن جن کی دنیا اجڑ گئی ان کے لیے زندگی بھر کا درد ہے۔ شرمک اسپیشل ٹرینوں سے جو لوگ کسی طرح اپنے گاؤں گھر پہنچ پائے، ان کے قصے رونگٹے کھڑے کر دینے والے ہیں۔

24 مئی کو مہاراشٹر سے مظفر پور آ رہی شرمک اسپیشل ٹرین میں مظفر پور کی ایک خاتون کو مدھیہ پردیش میں نرسنگھ پور کے پاس درد زہ ہوا تھا۔ اگلے اسٹیشن جبل پور میں نوزائیدہ کو ٹھیک بتا کر ٹرین کو آگے بڑھا دیا گیا۔ آگے ستنا اسٹیشن آیا۔ وہاں بھی اس کی حالت پر کسی کو رحم نہیں آیا۔ اگلے اسٹیشن پر رکنے سے پہلے بچی کی موت ہو گئی اور باقی کا سفر اسے آئس باکس میں کرنا پڑا۔


سیتامڑھی کے کھجوری سید پور تھانہ حلقہ کے سون پور باشندہ دیویش پنڈت رو رو کر جو کہانی سناتے ہیں، اسے جان سن کر ہی کوئی بھی رو پڑے۔ ممبئی سے سیتامڑھی کے لیے ٹرین پکڑنے والے دیویش کے ساتھ بیوی اور آٹھ مہینے کا بچہ بھی تھا۔ راستے میں بچے کو تکلیف ہوئی تو پنڈت کی فیملی آگرہ میں اتر گئی۔ دیویش کہتے ہیں "آگرہ میں علاج تو کیا گیا، لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ ابھی نکلنے سے بچے کی زندگی کو خطرہ ہے۔ اور تو اور، یہ کہہ کر کہ ٹرین سیتامڑھی جائے گی، ہمیں راج کوٹ-بھاگلپور اسپیشل ٹرین میں بٹھا دیا گیا۔"

دیویش پنڈت کے مطابق "کانپور پہنچنے سے پہلے ہی بچے نے دم توڑ دیا۔ کانپور سے گیا جنکشن تک بچے کی لاش کے ساتھ آنے کے بعد پتہ چلا کہ ٹرین تو دوسرے روٹ پر ہے۔ سیتامڑھی نہیں جائے گی۔ پھر یہاں سے کاغذی کارروائی کے بعد سیتامڑھی کے لیے نکل سکے۔ اس دوران شرمک ٹرینوں میں کئی بچوں کی پیدائش بھی ساتھی مسافروں کی دیکھ ریکھ میں ہوئی اور جو دیگر لوگ زندہ پہنچے، وہ بھی ان کی مدد کے ہی بھروسے۔


ممبئی کے دھاراوی میں رہ رہے محمد ظفیر کے لیے جب وہاں کھانا پینا مشکل ہو گیا تو وہ بہار جانے کے لیے چھٹپٹانے لگے۔ بہت کوشش کی تو ٹکٹ کی باری آئی، لیکن ان کی بیوی شہانہ خاتون اور بیٹی یاسمین کو اس لیے ٹکٹ دینے سے منع کر دیا گیا کہ ان کے پاس آدھار کارڈ نہیں تھا۔ بیوی اور بیٹی کا آدھار کارڈ بہار میں تھا، لیکن کسی نے راستہ نہیں بتایا کہ کس طرح ای-آدھار سے کام بن سکتا ہے۔

جب کچھ سمجھ میں نہیں آیا تو ظفیر بیوی اور بیٹی کو وہیں چھوڑ کر شرمک ٹرین سے تنہا ہی بہار کے لیے نکل گیا۔ شہانہ کہتی ہیں کہ "ممبئی سے وہ ٹھیک ٹھاک نکلے تھے۔ بہار پہنچ گئے تو تسلی بھی ہوئی۔ لیکن گوپال گنج میں طبیعت بگڑی اور پھر انتقال کی منحوس خبر آئی۔ 29 مئی کو ان کا جسم تو گاؤں پہنچ گیا، لیکن ہم انھیں اب بھی اسی ٹرین میں محسوس کر رہے ہیں۔"


اسی طرح کٹیہار کی 23 سالہ اربینہ خاتون کی تو مظفر پور جنکشن پر لاش ہی اتاری گئی۔ لاش کے ساتھ سلوک بھی سرخیوں میں آیا کیونکہ اسٹیشن پر اس کا معصوم بچہ اس کے اوپر رکھی چادر سے کھیل رہا تھا، مانو وہ سوئی ہوئی ہو۔ ایسے ہی نامعلوم اسباب سے بیتیا کے چار سالہ ارشاد کا بھی انتقال ہو گیا تھا۔ گھر والے اس کی موت کی وجہ بے انتہا گرمی میں خالی پیٹ رہنا بتا رہے ہیں، حالانکہ اس پر کوئی سرکاری بیان نہیں آیا۔

بھاگلپور کے انیرودھ ساہ تو اپنے ضلع پہنچ کر بھی نہیں بچے۔ تیز بخار میں ہی طویل دوری تک سفر کرتے رہے، نتیجتاً بھاگلپور میں وینٹی لیٹر پر رکھے جانے کے باوجود سانس نہیں لوٹی۔ کورونا ضابطہ کے تحت آخری رسومات ادا ہوئی، لیکن رپورٹ نگیٹو آنے کے بعد اہل خانہ معاوضہ مانگیں بھی تو کس مد میں؟


ایسا ہی معاملہ کھگڑیا میں بھی پیش آیا۔ ہریانہ سے 38 سال کے پشوپتی سدا اپنے آبائی ضلع تو پہنچ گئے، لیکن گھر پہنچنے کے پہلے ٹرین میں موت ہو گئی۔ انھیں بھی کورونا نہیں تھا۔ اب غریب گھر والے یہ پوچھ رہے ہیں کہ انھیں معاوضہ بھی ملے گا یا ویسے ہی مر جائیں۔

اسی طرح چنئی سے مدھوبنی کے لیے چلے جھنجھارپور کے 53 سالہ سہدیو رام کے بارے میں بھی گھر والے یہی سوال اٹھا رہے ہیں اور مہاراشٹر سے کٹیہار آنے کے دوران برونی اسٹیشن پر اچانک چھٹپٹاکر سانس توڑنے والے اودھ پور قاضی ٹولہ باشندہ انور کے اہل خانہ بھی۔


یہ تو بس اس تباہی کی زد میں آئے کچھ لوگوں کی داستانیں ہیں۔ ایسے ہی نہ جانے کتنے لوگوں کی موت حکومت اور ریلوے کی بے حسی اور بدانتظامی کی وجہ سے ہو گئی ہے۔ حالانکہ یہ سچ ہے کہ کبھی بھی کوئی حکومت اس کا اعتراف نہیں کرنے جا رہی ہے، لیکن جن کے اوپر گزری ہے، جنھوں نے اپنوں کو کھویا ہے اور جن کی موت ہوئی ہے ان کی لاش سارا سچ جانتی ہے اور چیخ چیخ کر حکومت سے سوال کر رہی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 04 Jun 2020, 3:11 PM