بیشتر لوگ ٹی وی چینلوں پر تخریبی بیان بازی سے ناراض، سروے میں انکشاف
ہندوستان میں مختلف زبانوں کے بہت سارے ٹی وی چینلز ہیں اور وہ ناظرین کو متوجہ کرنے کی لگاتار کوششیں کرتے ہیں، اور اسی کوشش میں کئی بار تخریبی بیان بازیاں بھی دیکھنے کو مل جاتی ہیں۔
ہندوستان میں مختلف زبانوں کے بہت سارے ٹی وی چینلز ہیں اور وہ ناظرین کو متوجہ کرنے کی لگاتار کوششیں کرتے ہیں، اور اسی کوشش میں کئی بار تخریبی بیان بازیاں بھی دیکھنے کو مل جاتی ہیں۔ ناظرین کے پاس چونکہ او ٹی ٹی پلیٹ فارم کے علاوہ تفریحی شو، فلمیں اور کھیل دیکھنے کے متبادل موجود ہیں، اس لیے کئی نیوز چینلز زیادہ سے زیادہ لوگوں کو متوجہ کرنے کے لیے متنازعہ اور سیاسی و نظریاتی طور سے تخریبی ایشوز پر مبنی مواد پیش کرتے ہیں۔ یہ اکثر بلاوجہ کے تنازعات پیدا کرتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ ایک پرائم ٹائم ٹی وی مباحثہ کے دوران بی جے پی کی معطل ترجمان نوپور شرما کے تبصرے سے ہوا جس پر ہنگامہ اب بھی برپا ہے۔
نوپور شرما کے ذریعہ پیغمبر محمد کے خلاف دیے گئے قابل اعتراض بیان نے اس قدر عالمی تنازعہ کو پیدا کر دیا کہ انھیں پارٹی سے معطل کرنا پڑا۔ حالانکہ کئی ہندوستانیوں کی رائے ہے کہ یہ مناسب وقت ہے کہ نیوز ٹی وی چینلوں کو ایسے شو اور مباحث کو نشر کرنا بند کر دینا چاہیے جو فرقہ وارانہ پولرائزیشن کو فروغ دیتے ہیں۔ اس ایشو پر عام ہندوستان کے نظریات جاننے کے لیے آئی اے این ایس کی طرف سے سی-ووٹر کے ذریعہ کیے گئے ملک گیر سروے کے دوران کچھ اہم انکشافات ہوئے۔
مجموعی طور پر 77 فیصد شرکا نے محسوس کیا کہ ٹی وی چینلوں کو فرقہ ورانہ طور پر پولرائزیشن کرنے والے شو کو بند کر دینا چاہیے، جب کہ 23 فیصد کی رائے تھی کہ ٹی وی چینلوں کے لیے ایسا کرنا یعنی شو کو چلانا ٹھیک ہے۔ سروے میں یہ بھی پتہ چلا کہ 78 فیصد سے زیادہ اپوزیشن حامیوں نے محسوس کیا کہ ٹی وی چینلوں کو تخریب پر مبنی شو اور مباحث سے دور رہنا چاہیے، اور این ڈی اے کے 75 فیصد سے زائد حامیوں نے بھی ایسا ہی محسوس کیا۔ نوجوان اس جذبہ کی حمایت کرنے کے لیے زیادہ پرجوش تھے۔ 18 سے 24 سال کے درمیان کے 80 فیصد شرکا نے کہا کہ ٹی وی چینلوں کو تخریب کاری مباحث کو نشر کرنے سے بچنے کی ضرورت ہے، جب کہ 55 سال سے زیادہ عمر کے 71 فیصد لوگوں نے بھی ایسا ہی محسوس کیا۔
قابل ذکر ہے کہ سی ووٹر سروے نے لگاتار دکھایا ہے کہ عام ہندوستانی بے روزگاری اور مہنگائی جیسے ایشوز سے زیادہ فکر مند ہے۔ ان ایشوز کو نظر انداز کر کے کچھ ٹی وی چینلز قلیل مدتی ٹی آر پی حاصل کرنے کی خواہش میں طویل مدت کے اپنے ناظرین سے محروم ہو سکتے ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔