اعداد و شمار تو بی جے پی کے حق میں نہیں ہیں
دوسرے مرحلے کی پولنگ کو لے کر تمام طرح کی اٹکلیں لگائی جا رہی ہیں لیکن صورتحال بی جے پی کے لئے اچھی نظر نہیں آ رہی ہے
گجرات کا تاریخی انتخاب اپنے آخری دور میں ہے اور آج جب ووٹ دہندگان اپنے حق رائے دہی کا استعمال کر رہے ہیں تو شاید وہ حال کی سیاسی تاریخ کے سب سے بڑے پھیر بدل کی عبارت کوتحریر کررہے ہیں۔ دوسرے مرحلے کی پولنگ کے نتائج اس بات پر منحصر ہوں گے کہ بی جے پی کی پکڑ احمد آباد اور وڈودرا کے دیہی علاقوں میں برقرار ہے یا نہیں۔
پولنگ کے دوسرے اور آخری مرحلے میں بے حد نزدیکی مقابلہ کے امکانات ہیں کیوں کہ ریاست سے مل رہے اشاروں کے مطابق 2012 کے انتخابات میں بی جے پی کی موجودہ 63 سیٹوں میں قابل ذکر کمی ہونے جا رہی ہے۔ کئی طرح کی پیچیدگیوں کے باعث دوسرا مرحلہ بی جے پی کے لئے ایک چیلنج ثابت ہو سکتا ہے کیوں کہ اس کا روایتی حساب کتاب کا قلعہ منہدم ہو چکاہے۔
آججن 93 سیٹوں پر پولنگ ہونے جا رہی ہے ان میں بی جے پی کو کانگریس پر 7.6 فیصد کی سبقت حاصل ہے۔ پچھلے چناؤ میں 52 سیٹوں پر بی جے پی، 39 پر کانگریس اور دیگر ایک ایک سیٹ پر این سی پی اور آزاد امید وار نے جیت درج کی تھی۔ حالانکہ، حقیقی حالات کو سمجھنے کے لئے مجموعی اعداد و شمار کا مطالعہ درکار ہے۔
احمد آباد اور وڈودرا کا شمار گجرات کے بڑے اضلاع میں کیا جاتا ہے اور 182 ارکان پر مشتمل گجرات اسمبلی میں ان دو اضلاع کی سیٹوں کی تعداد 31 ہے۔ کانگریس کے 4 کے مقابلہ بی جے پی نے احمد آباد میں 25.5 فیصد اور وڈودرا میں 16.9 فیصد کی سبقت حاصل کرتے ہوئے ان 31 میں سے 26 پر جیت درج کی تھی۔ باقی بچی ہوئی 62 سیٹوں پر سیاسی صورت حال اس کے بر عکس رہی۔ ان 62 سیٹوں میں بی جے پی کی 26 سیٹوں کے مقابلہ میں کانگریس نے 35 سیٹیں حاصل کی تھی۔ ووٹ شیئر کے معاملہ میں یہاں بی جے پی کو محض 0.2 فیصد کی سبقت حاصل ہوئی تھی۔
احمد آباد، سورت، وڈودرا اور اجکوٹ میں بی جے پی زبردست طریقہ سے مضبوط ہوئی تھی۔ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کی وجہ سے سورت میں بی جے پی کی مقبولیت شدید طور متاثر ہوئی ہے ۔جبکہ کسانوں کی ناراضگی اور پٹیل تحریک نے راجکوٹ، احمدآباد اور وڈودرا میں بھی اثر ڈالا ہے۔ بی جے پی کو 2012 میں احمد آباد میں 25 فیصد کی سبقت حاصل ہوئی تھی اس لئے اس کو ذہن میں رکھتے ہوئے بی جے پی کو ہٹانا آسان نہیں ہوگا۔
احمد آباد ضلع میں 21 اسمبلی سیٹیں ہیں اور بی جے پی نے ان میں سے 17 پر جیت حاصل کی تھی۔ کانگریس نے یہاں محض 4 سیٹیں جیتی تھیں لیکن ان میں سے 3 سیٹیں باہری علاقوں سے وابستہ ہیں۔ اگر مقابلہ براہ راست ہوتا تو کانگریس یہاں ایک اور جمال پور کھاڑیا کی سٹ جیت سکتی تھی۔
وڈودرا میں کانگریس کی حالت بہت خراب تھی اور ایک طرح سے صفایاہو گیا تھا کیوں کہ یہاں پر بی جے پی نے 10 میں سے 9 سیٹیں حاصل کر لی تھی۔ جبکہ ساولی سیٹ پر آزاد امید وار کیتن بھائی نامدار نے جیت درج کی تھی۔
احمد آباد اور وڈودرا میں 26 سیٹوں پر سبقت بی جے پی کی چناوی حکمت عملی کا مرکز ہے۔ اگر کانگریس یہاں نقب لگانے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو اسے بڑا فائدہ حاصل ہوگا۔ ان دو اضلاع میں برابری ہونے پر بے کانگریس جیت کی حالت میں ہوگی۔ اگر کانگریس بی جے پی کو 20 سیٹوں یا اس سے بھی کم پر روک پانے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو یہ اس کے لئے بڑی کامیابی ہوگی۔
گجرات انتخابات کے دوسرے مرحلے میں دیہی علاقوں کے نتائج بھی حیران کن ثابت ہو سکتےہیں ۔ یہاں کانگریس اپنی سیٹوں کو 35 سے 45 تک پہنچانے میں کامیاب ہو سکتی ہے اور بی جے پی کی سیٹیں 26 سے کم ہوکر 15 تک گر سکتی ہیں۔ ان سیٹوں کے نتائج اس بات پر منحصر ہوں گے کہ یہاں کے پیچیدہ سیاسی مساوات کس طرح کام کرتے ہیں۔
ان سیٹوں پر کانگریس کی بنیاد سماجی اتحاد پر قائم تھی جس میں چھتری، ہریجن، آدیواسی ، مسلم طبقات شامل ہیں۔ علاوہ ازیں شنکر سنگھ واگھیلا کی موجودگی کا فائدہ بھی کانگریس کو حاصل ہوا تھا۔ واگھیلا کے پارٹی سے باہر جانے کے بعد کانگریس کے چناوی منیجمنٹ نے اس چناؤ کو پارٹی کے لئے آسان بنا دیا ہے۔ واگھیلا کا ہونا پارٹی کے لئے کچھ مسائل پیدا کر سکتا تھا۔ یہاں سوال یہ بھی ہے کہ کیا الپیش ٹھاکور اس نقصان کی بھرپائی کر پائیں گے؟ ایسا ہو بھی سکتا ہے کیوں کہ چناوی تشہیر کے پورے پس منظر سے واگھیلا غائب رہے ہیں۔
حالانکہ ان سیٹوں پر پاٹیدار طبقہ فیصلہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔ بی جے پی نے ایسی سیٹوں پر بڑی تعداد میں چھتریہ امیدواروں کو اتارا ہے جہاں پٹیل اور چھتری برابر تعداد میں ہیں۔ بی جے پی یہاں پٹیلوں کی حمایت کی امید کر رہی ہے جبکہ پٹیلوں میں بی جے پی کی مقبولیت میں کافی گراوٹ آ چکی ہے۔ ایسے حالات میں بی جے پی کو اپنے سیاسی ذرائع پر از سر نو کام کرنا ہوگا۔
پاٹیدار طبقہ بی جے پی کی پریشانی کا سبب ثابت ہو سکتاہے کیوں دوسرے مرحلے میں احمد آباد اور وڈودرا کے باہر سے آنے والے 26 بی جے پی اراکین اسمبلی میں سے تقریباً نصف پٹیل طبقہ سے آتے ہیں۔ واگھیلا کے کانگریس کا دامن چھوڑ دینے سے بی جے پی کو جو فائدہ ملا تھا اس پر اب تقریباً پانی پھر چکا ہے اور بی جے پی کے لئے ان سیٹوں کو بنائے رکھنا ایک چیلنج بن گیا ہے۔
بی جے پی ایسی پارٹی ہے جو ہر حال میں چناؤ جیتنا چاہتی ہے اور آخری وقت تک چناوی حکمت عملی پر کام کرتے رہنے کے لئے جانی جاتی ہے۔ تین مہینے قبل بی جے پی کا خیال تھا کہ وہ بغیر کسی چیلنج کے ریاست میں اپنا اقتدار برقرار رکھنے میں یامیاب ہو جائے گی لیکن پاٹیدار تحریک، نوٹ بندی اور جی ایس ٹی نے کانگریس کو امید کی ایک روشنی دے دی اور وہ بی جے پی کو پرسکون حالت سے باہر نکالتے ہوئے چناوی عمل پر اپنا دبدبہ قائم رکھنے میں کامیاب رہی۔
گجرات میں بی جے پی کی جیت کے امکانات نظر نہیں آتے، گھریلو میدان پر اگرمعاملہ برابری کا بھی رہا تواس صورت کو بھی بی جے پی کی ہار اور کانگریس کی جیت کے طور پر تسلیم کیا جائے گا۔ اگر کانگریس کامیاب ہو جاتی ہے تو وہ ہندوستان کی سیاست کا رخ تبدیل کرکے رکھ سکتی ہے۔ دیکھتے ہیں کیا اور کیسے ہوتا ہے!
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 14 Dec 2017, 9:27 AM