ایودھیا معاملے میں روی شنکر کی ثالثی سے یوگی کو فائدہ!
اتر پردیش کے میونسپل کارپوریشن انتخابات اور گجرات اسمبلی انتخابات کی تشہیر کے درمیان بی جے پی اور آر ایس ایس رام مندر کا ڈنکا جس طرح سے پیٹنے پر مجبور ہو رہے ہیں، اس سے ان کے اندر کی بے چینی کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔ اتر پردیش کی سیاست جس تیزی کے ساتھ یوگی راج میں ’رام‘ پر مرکوز ہو گئی ہے، اس سے صاف ہے کہ ترقی کے سبھی دعوے بے معنی ثابت ہو گئے ہیں۔ یہاں تک کہ مقامی انتخابات میں یوگی کو ’مندر‘ کے آس پاس ہی منڈلانا پڑ رہا ہے۔ ایودھیا میں خود کو روحانی پیشوا بتانے والے روی شنکر کا جانا اور لکھنؤ سے لے کر ایودھیا تک میں سبھی فریق سے بات چیت کرنا اس بات کو واضح کرتا ہے کہ وہ رام مندر میں ایک بڑی قومی پالیسی کے تحت گئے ہیں۔ اس پورے منظرنامے میں بی جے پی ممبر پارلیمنٹ سبرامنیم سوامی کی کوشش کو بھی دھیان میں رکھنا لازمی ہے۔ روی شنکر نے ایودھیا میں واضح لفظوں میں کہا کہ رام مندر پر فارمولہ نکالنا آسان نہیں ہے، لیکن وہ 100 بار ناکام ہونے کے لیے تیار ہیں۔ دوسری طرف گجرات انتخابات میں بھی رام مندر ایشو کو استعمال کرنے کی تیاری ہے۔
روی شنکر کے ایودھیا جانے سے خود بی جے پی اور وشو ہندو پریشد کی قیادت میں زبردست کھلبلی ہے۔ تمام لیڈران جو خود کو رام مندر تحریک کے پیروکار تصور کرتے ہیں، وہ سرے سے روی شنکر کے مشن کو ناکام قرار دے رہے ہیں۔ وہ تو یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ روی شنکر ’آرٹ آف لیونگ‘ کے پیسوں کو سدھا رہے ہیں، یا یہ کہ روی شنکر ایودھیا مسئلے پر دخل اندازی کرنے والے ہوتے کون ہیں۔ لیکن جس طرح سے کل لکھنو میں انھوں نے اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ سے ملاقات کی اور اس کے بعد اپنے ملازمین کی میٹنگ کی اور آگے کی پالیسی پر ان کے ساتھ تبادلہ خیال کیا، اس سے صاف ہے کہ وہ رام مندر مسئلے پر لمبی اننگ کھیلنے کے لیے اترے ہیں۔ بی جے پی کے مقامی کارکن گڈو تیواری کا کہنا ہے کہ روی شنکر کے آنے سے رام مندر کے حق میں ماحول بنے گا اور وی ایچ پی وغیرہ کے جو لیڈر طویل مدت سے اس ایشو پر سرگرم ہیں وہ درکنار ہو جائیں گے۔ غالباً یوگی بھی یہی چاہتے ہیں کہ ریاست میں رام مندر سے متعلق پوری سیاست کی کمان انہی کے پاس آ جائے اور ایسے میں روی شنکر کے دورہ سے انھیں فائدہ ہو جائے۔
اس کے ساتھ ہی اس بات پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ اس وقت میونسپل الیکشن میں اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ نے کمر کس رکھی ہے۔ ایسا پہلی بار دیکھنے کو ملا کہ فیض آباد میں میونسپل کے انتخاب کا پرچہ بھرانے کے لیے بھی خود یوگی گئے۔ اس انتخاب کو یوگی آدتیہ ناتھ نے وقار کا مسئلہ بنا لیا ہے اور تقریباً ایک مہینے سے کابینہ وزیر بھی یہیں ڈیرا ڈالے ہوئے ہیں۔ اس بار یہاں سے آر ایس ایس کے خاص رشی کیش اپادھیائے کو بی جے پی نے میدان میں اتارا ہے اور سماجوادی پارٹی نے ایک زنخہ گلشن بندو کو کھڑا کیا ہے۔ فیض آباد میں سماجی کارکن گلفام علی کا کہنا ہے کہ سماجوادی پارٹی کی امیدوار کے حق میں خود بی جے پی پرانے لوگ تشہیر کرنے کے لیے تیار نہیں ہو رہے تھے اس لیے وزیر اعلیٰ کو خود اترنا پڑ رہا ہے۔ ایسے میں یوگی کو محسوس ہو رہا ہے کہ روی شنکر کے آنے سے ان کے حق میں ماحول بنے گا اور ایک بار پھر انتخاب ’رام مندر‘ پر مرکوز ہو جائے گا۔
روی شنکر نے ایودھیا میں رام مندر مسئلہ پر جو کچھ بھی کہا وہ دراصل بی جے پی کی بڑی پالیسی کا ہی حصہ معلوم پڑ رہا ہے۔ مثلاً ان کا یہ کہنا کہ عدالت کا فیصلہ ایک حق پر بھاری پڑے گا، ہمیں سوچنے کے لیے تھوڑا وقت چاہیے۔ یا پھر یہ کہنا کہ سیاست اور کورٹ کو ان ملاقاتوں سے الگ رکھیں اور جدوجہد کے بغیر ہی حل نکلنا چاہیے۔ یہ تمام باتیں الگ الگ وقت پر بی جے پی اور آر ایس ایس کے لیڈر بولتے رہے ہیں اور اس کے ذریعہ یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں کہ اعتقاد کا معاملہ کورٹ کچہری سے اوپر ہوتا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔