کولکاتا معاملہ پر اشاروں میں لب کشائی مگر بلقیس بانو اور اناؤ ریپ سمیت کئی واقعات پر خاموشی، مودی کے قول اور فعل کا تضاد

وزیر اعظم مودی نے لال قلعہ سے اشاروں میں کولکاتا ریپ اور قتل معاملہ پر لب کشائی کی، مگر بلقیس بانو اور اناؤ ریپ سمیت کئی معاملوں میں ان کی خاموشی قول اور فعل کے تضاد کو عیاں کر چکی ہے

<div class="paragraphs"><p>لال قلعہ سے خطاب کرتے وزیر اعظم مودی / یو این آئی</p></div>

لال قلعہ سے خطاب کرتے وزیر اعظم مودی / یو این آئی

user

قومی آواز بیورو

یومِ آزادی کے موقع پر لال قلعے کی فصیل سے قوم سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی نے ملک میں خواتین کے خلاف بڑھتے ہوئے جرائم کا ذکر کیا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ جو بھی خواتین کے ساتھ گھناؤنا سلوک کریں، ان کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہیے۔ پی ایم مودی نے اشاروں ہی اشاروں میں کولکاتا میں پیش آئے خاتون ڈاکٹر کے ریپ اور قتل کے واقعے پر سخت کارروائی کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ خواتین کے خلاف بربریت کرنے والوں کو جلد از جلد سزا دی جانی چاہیے۔ تاہم، انہوں نے اپنے خطاب میں کولکاتا کے واقعے کا براہ راست ذکر نہیں کیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا حقیقت میں ان کی اپنی حکومت اور ریاستی بی جے پی حکومتیں خواتین پر ہونے والے ظلم و ستم کو سنجیدگی سے لیتی ہیں، یا پھر پی ایم مودی کا لال قلعے کی فصیل سے کیا گیا خطاب محض ایک دکھاوا ہے؟ آئیے اس پر غور کریں۔

کیا پی ایم مودی کے قول اور فعل میں تضاد ہے؟

مرکز سمیت کئی ریاستوں میں بی جے پی کی حکومتیں ہیں۔ مرکز میں بی جے پی کی تیسری مدت ہے۔ اس دوران ملک بھر میں خواتین کے خلاف کئی سنگین اور سنسنی خیز جرائم ہوئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ مرکز کی مودی حکومت اور بی جے پی کی حکومتوں کا ان جرائم پر کیا ردعمل رہا؟ اگر آپ غور کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ لال قلعے کی فصیل سے پی ایم مودی نے جو باتیں کہیں، ان پر ان کی اپنی ہی حکومت اور ریاستی بی جے پی حکومتیں غیر حساس رہی ہیں۔ یہ واقعات خود اس کی گواہی دیتے ہیں اور پی ایم مودی اور بی جے پی کی ریاستی حکومتوں کے قول اور فعل کے تضاد کو عیاں کر دیتے ہیں۔


اوناؤ ریپ کیس

اوناؤ ریپ کیس 2017 کا ہے، جس نے پورے ملک میں ہلچل پیدا کر دیت تھی۔ اناؤ ریپ کیس کا کلیدی ملزم اس وقت کا بی جے پی کا رکن اسمبلی کلدیپ سنگھ سینگر تھے۔ جب یہ معاملہ سامنے آیا تو بی جے پی کافی دنوں تک خاموش رہی اور اس پر سینگر کو بچانے کا الزام لگا۔ جب اس معاملے میں عدالت نے مداخلت کی، تب جا کر بی جے پی حرکت میں آئی اور کلدیپ سینگر کو پارٹی سے باہر نکالا گیاا۔ عدالت نے کلدیپ سنگھ سینگر کو ریپ کا مجرم قرار دیا اور اسے 16 دسمبر 2020 کو عمر قید کی سزا سنائی۔

بلقیس بانو کیس

اب ایک اور مشہور جرم کی بات کرتے ہیں، جس پر ملک بھر میں خوب بحث ہوئی تھی۔ یہ معاملہ بلقیس بانو گینگ ریپ کا ہے جو وزیراعظم نریندر مودی کی ریاست گجرات سے متعلق ہے۔ 2002 میں گجرات فسادات کے دوران بلقیس بانو کے ساتھ گینگ ریپ ہوا تھا اور ان کے خاندان کو قتل کر دیا گیا تھا۔ آج سے ٹھیک دو سال پہلے یعنی 15 اگست 2022 کو بلقیس بانو کے 11 مجرموں کی سزا معاف کرتے ہوئے انہیں رہا کر دیا گیا تھا۔ ریاست کی بی جے پی حکومت نے اس جرم کے مجرموں کی سزا معاف کر دی تھی، جس کے نتیجے میں وہ سب آزاد ہو گئے۔


خوش قسمتی سے سپریم کورٹ نے بلقیس بانو کو انصاف فراہم کیا۔ سپریم کورٹ نے بلقیس بانو کے ساتھ ریپ اور ان کے خاندان کے افراد کے قتل کے 11 مجرموں کی سزا معاف کر دینے اور رہائی کے فیصلے کو منسوخ کر دیا۔ اپنے فیصلے میں سپریم کورٹ نے کئی اہم تبصرے کئے۔ جسٹس بی وی ناگرتنا اور اجول بھوئیان نے کہا تھا کہ مئی 2022 میں گجرات حکومت نے مجرموں کی سزا کو معاف کرنے کے سلسلہ میں حقائق کو نظر انداز کر دیا۔

خیال رہے کہ ممبئی میں سی بی آئی کی ایک خصوصی عدالت نے بلقیس بانو کے ساتھ گینگ ریپ اور ان کے خاندان کے سات افراد کے قتل کے الزام میں 2008 میں 11 مجرموں کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔ بمبئی ہائی کورٹ نے بھی اس سزا پر مہر ثبت کی تھی۔

منی پور میں دو خواتین کی برہنہ پریڈ

منی پور میں خواتین کے خلاف جو جرائم ہوئے وہ مہذب معاشرے کے لیے شرم کا باعث ہیں اور اس پر مرکز کی مودی حکومت کی خاموشی نے جمہوریت پر کالک لگانے کا کام کیا۔ منی پور میں مہینوں تک افراتفری جاری رہی لیکن مرکز کی حکومت سب کچھ ٹھیک ہے کا دعوی کرتی رہی۔ منی پور میں 3 مئی 2023 کو تشدد شروع ہوا تھا اور 4 مئی کو دو خواتین کی برہنہ پریڈ کرائی گئی، لیکن پولیس انہیں بچانے تک نہیں آئی، بلکہ پولیس پر ان خواتین کو بھیڑ کے حوالے کرنے کا الزام لگا۔

واقعے کے تقریباً دو ماہ بعد جولائی میں ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی، جسے دیکھ کر پورا ملک حیران رہ گیا۔ ویڈیو میں دیکھا جا سکتا تھا کہ دو برہنہ خواتین مردوں کی بھیڑ سے گھری ہوئی ہیں اور انہیں پریڈ کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ اس واقعے کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد بھی پی ایم مودی کا دل نہیں پسیجا اور وہ خاموش رہے۔ جب اپوزیشن نے پارلیمنٹ میں پی ایم مودی کو بولنے پر مجبور کیا، تو انہوں نے 20 جولائی کو منی پور پر بیان دیا۔ وہ بھی منی پور پر کچھ الفاظ ہی بولے اور باقی وقت اپوزیشن پر ہی تنقید کرتے نظر آئے۔ منی پور کا واقعہ بتاتا ہے کہ پی ایم مودی قول اور فعل میں کتنا فرق ہے۔ یہ واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ اور ان کی پارٹی خواتین کے خلاف جرائم کو لے کر کتنے سنجیدہ ہیں۔ آج بھی منی پور میں حالات بہتر نہیں ہوئے۔ تشدد کی خبریں مسلسل سامنے آتی رہتی ہیں۔


ریپ کے مجرم رام رحیم پر رحم کیوں؟

وزیراعظم مودی نے لال قلعے کی فصیل سے خواتین کے خلاف جرائم کرنے والوں کے خلاف سخت رویہ اپنانے کی بات کی لیکن بی جے پی کی زیر حکمرانی ہریانہ میں ریپ کے مجرم گرمیت رام رحیم کے خلاف کس قسم کا رویہ اپنایا جا رہا ہے، وہ سب کے سامنے ہے۔ ابھی دو دن پہلے ہی ریپ کے مجرم اور ڈیرہ سچا سودا کے سربراہ گرمیت رام رحیم ایک بار پھر جیل سے باہر آیا ہے۔ آشرم میں دو خواتین پیروکاروں کے ساتھ زیادتی کے کیس میں 20 سال کی قید کی سزا کاٹ رہے رام رحیم کو 21 دن کی فرلو ملی ہے۔ یہ سب کچھ اس ریاست میں ہو رہا ہے، جہاں بی جے پی کی حکومت ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اسے سختی کہتے ہیں؟ سوال یہ بھی ہے کہ رام رحیم پر رحم دکھانے سے آخر سماج میں کیا پیغام جائے گا؟ اس سے پہلے فروری کے مہینے میں ہائی کورٹ نے ہریانہ حکومت سے کہا تھا کہ وہ ڈیرہ سچا سودا کے سربراہ کو اس کی اجازت کے بغیر مزید پرول یا فرلو منظور نہ کرے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔