وقف ایکٹ کے خلاف مخالفین کے الزامات پر سپریم کورٹ کے وکیل مولانا نیاز احمد فاروقی کے چشم کشا جوابات

سچر کمیٹی کے مطابق بھارت میں تمام وقف جائیدادوں کا مجموعی رقبہ 6 لاکھ ایکڑ ہے، اس کا موازنہ ہندو انڈومینٹ سے کیا جائے تو تمل ناڈو میں 478000 اور آندھرا میں 468000 ایکڑ زمین ہندو انڈومینٹ کے پاس ہیں۔

<div class="paragraphs"><p>مولانا نیاز احمد فاروقی</p></div>

مولانا نیاز احمد فاروقی

user

قومی آوازبیورو

وقف ایکٹ میں ترمیم کے حامی سیاسی و سماجی لیڈران موجودہ ایکٹ پر کئی طرح کے الزامات عائد کر رہے ہیں، حالانکہ وہ حقائق سے ناواقف ہیں۔ کئی طرح کی غلط فہمیاں بھی لوگوں کے ذہن میں ہے۔ ان غلط فہمیوں اور گمراہیوں کے لیے ضروری ہے کہ وقف ایکٹ پر اٹھ رہے سوالات کا جواب سبھی کے سامنے پیش کیا جائے۔ سپریم کورٹ کے وکیل اور جمعیۃ علماء ہند کے سکریٹری نیاز احمد فاروقی نے کچھ اہم الزامات پر چشم کشا جوابات سامنے رکھے ہیں جو قارئین کے لیے انتہائی مفید ہے۔ نیچے پیش ہیں اہم الزامات اور ان کے جوابات...

پہلا الزام

ملک بھر میں وقف بورڈوں نے بڑی مقدار میں سرکاری زمینوں پر قبضہ کر کے انہیں وقف قرار دے دیا ہے۔ وقف بورڈ بھارت میں تیسرا سب سے بڑا زمینوں کا مالک ہے۔ پہلے اور دوسرے نمبر پر ریلوے اور ڈیفینس ہیں۔

جواب

یہ الزام بے بنیاد ہے۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق، بھارت میں تمام وقف جائیدادوں کا مجموعی رقبہ 6 لاکھ ایکڑ ہے۔ اس کا موازنہ اگر ہندو انڈومینٹ سے کیا جائے تو تمل ناڈو میں 4,78,000 ایکڑ اور آندھرا پردیش میں 4,68,000 ایکڑ زمین ہندو انڈومینٹ کے پاس ہیں۔ صرف ان دونوں ریاستوں کو ملا کر 9,40,000 ایکڑ زمین ہندو انڈومینٹ کے پاس ہے۔ جبکہ پورے بھارت میں وقف جائیدادوں کا مجموعی رقبہ چھ لاکھ ایکڑ ہے۔

زمین کو وقف قرار دینا کوئی خفیہ عمل نہیں ہے۔ اس کا پورا طریقۂ عمل وقف ایکٹ میں مذکور ہے۔ وقف صرف وہی شخص کر سکتا ہے جو اپنی جائیداد کا مالک ہو اور اسے اپنی ملکیت کے دستاویزات وقف بورڈ میں جمع کروانے ہوتے ہیں۔ اس کے بعد عوام کو اعتراضات داخل کرنے کے لیے نوٹس جاری کیا جاتا ہے۔ حکومت ایک سروے کمشنر مقرر کرتی ہے جو زمینوں کی جانچ کرتا ہے اور ان کی وقف کی تصدیق کرتا ہے۔ اس کے بعد یہ اعلان ریاستی گزٹ میں شائع کیا جاتا ہے، اور کوئی بھی شخص اس نوٹیفیکیشن کو ایک سال کے اندر وقف ٹریبونل میں چیلنج کر سکتا ہے۔


دوسرا الزام

سروے کمشنر حکومت سے وقف املاک کے سروے کے لیے تنخواہ لیتا ہے؛ جبکہ ہندو فلاحی املاک کے لیے ایسی سہولت نہیں ہے۔ آئین کے آرٹیکل 27 کے تحت عوامی فنڈز کا مذہبی مقاصد کے لیے استعمال ممنوع ہے، اس لیے سروے کمشنر کا وقف سروے کے لیے سرکار سے تنخواہ لینا غیر آئینی ہے۔

جواب

سروے کمشنر کی تقرری مذہبی مقاصد کے لیے نہیں ہے۔ اس کی ذمہ داری مفاد عامہ کے لیے ہے۔ وقف جائیداد قانون کے مطابق صحیح ہے یا نہیں، اس کی انکوائری پہلے دو سطحوں پر ہوتی تھی، اب تین سطحوں پر ہوگی۔ اسی کی بنا پر ریونیو ریکارڈ میں اندراج ہوتا ہے۔ جبکہ ہندو انڈومینٹ کے لیے اتنی انکوائری اور جانچ کی ضرورت نہیں ہے اور صرف اسسٹنٹ کمشنر کے آرڈر سے انڈومینٹ درج کر لیا جاتا ہے۔

تیسرا الزام

تیسرا الزام وقف ٹریبونل کے بارے میں لگایا جاتا ہے کہ ہندوؤں کے لیے ایسا کوئی ٹریبونل موجود نہیں ہے۔ یہ عام تاثر ہے کہ ٹریبونلز وقف بورڈکے حق میں جانبدار ہیں۔

جواب

وقف ٹریبونلز باقاعدہ سول عدالتیں ہیں جن کا افسر اعلی ڈسٹرکٹ جج ہوتا ہے، جو وقف کے تنازعات کے بارے میں فیصلے کرتا ہے، اور یہی طریقہ سول عدالتوں میں بھی اختیار کیا جاتا ہے۔ اگر یہ الزام مان لیا جائے تو تمام سول عدالتیں اس سے مبرا نہیں ہو سکتیں۔


چوتھا الزام

وقف ٹریبونل کا قیام قانونی یا آئینی نہیں ہے کیونکہ یہ بھارت کے آئین کی شق 323(a) اور (b) کے تحت قائم نہیں کیا گیا ہے۔

جواب

شق 323 (a) صرف سروس کے معاملات کے لیے انتظامی ٹریبونلز کے قیام کا حکم دیتی ہے۔ جبکہ دوسرے ٹریبونلز وفاقی اور ریاستی قانون سازی کے اختیارات کے تحت قائم کیے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر، انکم ٹیکس اپیلیٹ ٹریبونل انکم ٹیکس ایکٹ 1961 کی شق 252 کے تحت قائم کیا گیا ہے۔ اسی طرح تلنگانہ میں ہندو انڈومینٹس ٹریبونل تلنگانہ چیریٹیبل اور ہندو مذہبی اداروں اور انڈومینٹس ایکٹ 1987 کی شق 162 کے تحت قائم کیا گیا ہے۔ اسی طرح وقف ٹریبونل وقف ایکٹ 1995 کی شق 83 کے تحت قائم کیا گیا ہے۔ لہذا وقف ٹریبونل کے قیام میں کوئی غیر قانونی یا قانونی نقص یا غیر معقول بات نہیں ہے۔

پانچواں الزام

وقف ٹریبونل میں ایک ایسا رکن مقرر کیا جاتا ہے جو اسلام کا علم رکھتا ہے، جبکہ ہندو انڈومینٹ کے معاملات میں ایسا کوئی ہندو نہیں ہوتا جو ہندو شاستروں کا علم رکھتا ہو۔

جواب

دیگر مذہبی اداروں میں بھی ایسی شرطیں پائی جاتی ہیں، مثلاً تلنگانہ ہندو انڈومینٹس ایکٹ 1987 کے مطابق ایک اضافی کمشنر لازمی طور پر ہندو ہونا چاہیے۔


چھٹا الزام

وقف کا ملازم پبلک سرونٹ ہے جبکہ کوئی ہندو شنکراچاریہ پبلک سرونٹ نہیں ہوتا۔

جواب

ہندو شنکراچاریہ یا ایک مسلمان عالم یا امام تب ہی پبلک سرونٹ کہلاتے ہیں جبکہ ہندو انڈومینٹ یا وقف کے ملازم ہوں، اس سلسلے میں دونوں کی حیثیت برابر ہے۔

ساتواں الزام

وقف کی جائیدادیں لمیٹیشن ایکٹ سے محفوظ ہیں، جبکہ ہندو انڈومینٹ کی جائیدادیں لمیٹیشن ایکٹ کے تحت آتی ہیں۔

جواب

اس طرح کی سہولت دوسرے مذہبی اداروں میں بھی پائی جاتی ہے۔ مثلاً تمل ناڈو اور تلنگانہ ہندو مذہبی اور خیراتی انڈومینٹس ایکٹ میں بھی اسی طرح کا پروویژن ہے۔


آٹھواں الزام

یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ وقف بائی یوزر (وقف بذریعہ استعمال) وقف ایکٹ 1995 کی شق 3 (ر) کے تحت جائیدادوں پر قبضے کا ایک طریقہ ہے۔

جواب

وقف بائی یوزر ان قدیم وقفوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے جو زبانی عطیہ کی بنیاد پر بنائے گئے تھے، اور ان کا کوئی تحریری ریکارڈ موجود نہیں ہے۔ اسلامی قانون کے مطابق زبانی عطیہ یا وقف جائز ہے، وقف بائی یوزر ایک مسلمہ قانونی اصول ہے اور ضرورت، افادیت اور شرعی احکام کے مطابق ہے۔

نواں الزام

کسٹوڈین کے قبضے میں جائیدادوں کو وقف بنانا۔

جواب

کسٹوڈین کے قبضے میں وہ جائیدادیں جو دراصل وقف تھیں اور عارضی طور پر انتظام کے لیے کسٹوڈین کے قبضے میں دی گئی تھیں، سیکشن 108 کے تحت صرف ان ہی جائیدادوں کی وقف کی حیثیت لوٹانے کا پروویژن ہے، جسے موجودہ ترمیم میں ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔


دسواں الزام

وقف ایکٹ کو دیگر تمام قوانین پر فوقیت حاصل ہے۔

جواب

وقف ایکٹ ایک اسپیشل قانون ہے اور مسلمہ قانونی اصول اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق اگر کوئی اسپیشل قانون کسی جنرل قانون سے ٹکڑاتا ہے تو اس صورت میں اسپیشل قانون کو فوقیت حاصل ہوتی ہے۔ یہ صرف وقف ایکٹ کے ساتھ خاص نہیں بلکہ یہ اصول دیگر اسپیشل ایکٹ پر بھی نافذ ہوتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔