کچھ لیڈران جانچ ایجنسیوں کا نوٹس ملتے ہی بی جے پی میں شامل ہو جاتے ہیں: کے سی وینوگوپال

وینوگوپال نے کہا کہ جیسے ہی کچھ لیڈروں کو جانچ ایجنسیوں نے نوٹس دیا، وہ کانگریس چھوڑ بی جے پی کے قدموں میں جا گرے، لیکن ڈی کے شیوکمار کی تعریف کرنی ہوگی جنھوں نے دباؤ میں بھی پارٹی کا ساتھ نہیں چھوڑا

کانگریس لیڈر کے سی وینوگوپال
کانگریس لیڈر کے سی وینوگوپال
user

قومی آواز بیورو

لوک سبھا انتخاب جیسے جیسے قریب آ رہا ہے، اپوزیشن لیڈران کی بی جے پی میں شمولیت کی خبریں بھی بڑھ رہی ہیں۔ کانگریس کے کئی لیڈران بھی بی جے پی کا دامن تھام چکے ہیں۔ اس معاملے میں کانگریس جنرل سکریٹری کے سی وینوگوپال کا ایک بیان سامنے آیا ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ سنٹرل جانچ ایجنسیوں سے نوٹس ملتے ہی کچھ لیڈران پارٹی چھوڑ دیتے ہیں اور جا کر برسراقتدار طبقہ بی جے پی میں شامل ہو جاتے ہیں۔ ساتھ ہی انھوں نے کرناٹک کے نائب وزیر اعلیٰ ڈی کے شیوکمار جیسے لیڈران کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ان پر بھی کئی سنٹرل ایجنسیوں کا دباؤ تھا، لیکن انھوں نے بی جے پی سے شکست نہیں مانی۔

کے سی وینوگوپال کا کہنا ہے کہ جیسے ہی کچھ لیڈروں کو جانچ ایجنسیوں نے نوٹس تھمائے، تو وہ کانگریس چھوڑ کر بی جے پی کے قدموں میں جا گرے۔ حالانکہ انھوں نے ایسے لیڈروں کی تعریف کی جو جانچ ایجنسیوں اور بی جے پی سے خوفزدہ نہیں ہوئے اور مشکل حالات کا سامنا کرتے ہوئے بھی کانگریس کے ساتھ کھڑے رہے۔ مثال کے طور پر انھوں نے ڈی کے شیوکمار کا نام لیا۔ انھوں نے کہا کہ شیوکمار کو جیل بھیجا گیا، بلاوجہ وہ تہاڑ جیل گئے۔ ان سے کہا گیا کہ اگر وہ پارٹی چھوڑنے کے لیے تیار ہیں تو انھیں رِہا کر دیا جائے گا، لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا۔ شیوکمار نے کہا تھا کہ ’کانگریس میری ماں ہے، وہ اسے کبھی نہیں چھوڑیں گے‘، اور انھوں نے ایسا ہی کیا۔ میں شیوکمار کے لیے واقعی بہت خوش ہوں۔


اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کے سی وینوگوپال نے کہا کہ ’’کچھ لیڈران ایسا نہیں کہہ سکتے۔ جانچ ایجنسیوں سے نوٹس ملنے پر وہ آسانی سے خودسپردگی کر دیتے ہیں اور سیاسی مخالفین کے پیروں پر گر جاتے ہیں۔‘‘ وینوگوپال نے کانگریس لیڈر راہل گاندھی کی لگاتار تنقید کرنے والے کیرالہ کے وزیر اعلیٰ پینارائی وجین کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ انھوں نے اس بات کو دہرایا کہ اگر راہل گاندھی کی تنقید کر کے وجین کسی کو خوش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تو کانگریس کو اس سے کوئی دقت نہیں ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔