سہراب الدین معاملے میں امت شاہ آخر کیسے بری ہو گئے؟: سابق جج

سابق جج ابھے ٹھپسے نے عدالتی کارروائیوں پر بھی کچھ شبہات ظاہر کیے اور کہا کہ ’’مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جس طرح عام عدالت میں کوئی سماعت ہوتی ہے، سہراب الدین معاملے میں ایسا دیکھنے کو نہیں ملا۔‘‘

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آواز بیورو

سہراب الدین انکاؤنٹر معاملے میں سابق جج ابھے ٹھپسے نے کچھ ایسے سوالات اٹھائے ہیں جو بی جے پی صدر امت شاہ کی آزادی کو کٹہرے میں کھڑا کرتی ہے۔ بمبئی ہائی کورٹ کے سبکدوش جج نے اس سلسلے میں کہا کہ ہائی کورٹ کو سہراب الدین معاملے پر دوبارہ غور کرنا چاہیے۔ جسٹس ٹھپسے نے اس سلسلے میں اپنا نظریہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ ’’جانچ میں کمی رہ گئی ہے۔ جن الزامات کے تحت پولس والے پھنسے ہیں، ٹھیک ویسے ہی الزامات میں امت شاہ آخر کس طرح بری ہو گئے؟ ایک ہی کیس میں دو طرح کی باتیں نہیں ہو سکتیں۔‘‘

سابق جج ٹھپسے نے اپنے ان خیالات کا اظہار ’دی انڈین ایکسپریس‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کیا۔ فرضی انکاؤنٹر معاملے میں خاموشی توڑنے کے فیصلے پر جب ان سے سوال کیا گیا تو جسٹس ٹھپسے نے کہا کہ ’’میں اس معاملے میں بہت بے چینی محسوس کر رہا تھا اور میری بے چینی کی وجہ یہ تھی کہ میں نے اس معاملے میں کچھ ملزمین کی ضمانت کی درخواستوں کو دیکھا تھا۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’ 38 ملزمین میں سے 15 ملزمین کو بری کر دیا گیا ہے۔ میں ونجارا کو ضمانت دینے پر بھی مطمئن نہیں تھا لیکن مجھے دینی پڑی کیونکہ سپریم کورٹ کا آرڈر تھا کہ ان کے ساتھی ملزمین (راج کمار) پانڈیان اور چوبے کو ضمانت دینے کا حکم دیا تھا۔ جب کہ میں نے اپنے حکم نامے میں یہ واضح کر دیا تھا کہ بظاہر ونجارا کے خلاف کیس بنتا ہے۔‘‘ سپریم کورٹ کے فیصلےپر اپنی مایوسی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ’’مجھے تکلیف ہوئی۔ ٹرائل کورٹ نے میرے فیصلے پر توجہ نہیں دی۔ میں نے یہ کہا تھا کہ بظاہر یہ معاملہ بنتا ہے اور یہ بہت سنگین جرم بھی ہے۔ جب اس بنیاد پر ہم نے ضمانت دینے سے انکار کر دیا تو سپریم کورٹ نے بغیر ان پہلوؤں کو دیکھے ضمانت دے دی۔ اس لیے یہ غلط ہوتا کہ اس کے بعد ونجارا کو ضمانت نہیں دی جاتی۔‘‘

مارچ 2017 میں بطور الٰہ آباد ہائی کورٹ جج سبکدوش ہونے والے ابھے ٹھپسے نے عدالتی کارروائیوں پر بھی کچھ شبہات ظاہر کیے اور کہا کہ ’’مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جس طرح عام عدالت میں کوئی سماعت ہوتی ہے، سہراب الدین معاملے میں ایسا دیکھنے کو نہیں ملا۔ بہت ساری باتیں ایسی ہوئیں جو عام طور پر بقیہ سماعتوں میں نہیں ہوتی ہیں۔ ایسے کئی ملزمین ہیں جن کو کئی سالوں تک ضمانت نہیں ملی تھی، الگ الگ عدالتوں نے ضمانت کی عرضیاں خارج کی تھیں۔ اس کا مطلب تو یہی ہے کہ جب کسی کے خلاف کیس مضبوط ہوتا ہے تبھی ضمانت کی عرضی خارج ہوتی ہے۔ ایسی صورت میں پانچ سات سال بعد کچھ ملزمین کو ضمانت کس طرح مل گئی۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’سپریم کورٹ نے کچھ لوگوں کو ضمانت تو دی تھی لیکن یہ کسی نے نہیں کہا تھا کہ ان کے خلاف کوئی کیس نہیں ہے۔ اگر کسی کو پہلے ضمانت ملنے میں پریشانی تھی تو پانچ سال بعد یہ کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ ان کے خلاف کوئی کیس ہی نہیں تھا۔‘‘

سابق جج نے اس سلسلے میں تفصیل سے بتاتے ہوئے کہا کہ ’’بمبئی ہائی کورٹ کے کچھ احکامات میں بھی یہ لکھا ہوا ہے کہ پہلی نظر میں کیس ہے لیکن پانچ پانچ سال سے حراست میں ہیں اور اسی بنیاد پر ضمانت دی گئی۔ سپریم کورٹ نے بھی جو ضمانت دی اس میں بھی یہی کہا کہ جب کیس چل نہیں رہا ہے تو ’پری کیس ڈیٹنشن‘ میں رکھنا مناسب نہیں ہے۔‘‘ گویا کہ جن لوگوں کو ضمانت پر رہا کیا گیا تھا وہ کیس سے پوری طرح بری نہیں ہوئے تھے۔ بی جے پی سربراہ امت شاہ سے متعلق ایک سوال کے جواب میں سابق جج نے کہا کہ ’’جن لوگوں کے خلاف کیس چل رہا ہے ان کے خلاف بھی وہی ثبوت ہیں جو بری کیے گئے لوگوں کے خلاف ہیں۔ ایک کیس میں دو طرح کی باتیں آخر کس طرح ہو سکتی ہیں۔ دونوں باتوں کو اگر جوڑ کر دیکھا جائے تو یہ کہنا غلط ہوگا کہ بری کیے گئے لوگوں پر کوئی کیس نہیں بنتا ہے۔‘‘ اس کے ساتھ ہی جسٹس ٹھپسے نے کہا کہ ہائی کورٹ کے پاس طاقت ہے کہ جو بھی ’ریویزن‘ فائل کی گئی ہے ان کی جانچ کرتے وقت اگر ہائی کورٹ یہ محسوس کرتا ہے کہ کچھ غلط ہو رہا ہے تو پہلے کے معاملوں پر نظر ثانی کرے اور یہ دیکھے کہ فیصلے صحیح کیے گئے یا نہیں۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔