سی بی آئی سہراب الدین معاملے میں امت شاہ کو بچا رہی ہے!
وکیلوں کے ذریعہ داخل مفاد عامہ عرضی میں کہا گیا ہے کہ سی بی آئی ایک باوقار جانچ ایجنسی ہے۔ اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی کارروائی میں قانون کے ضابطوں پر عمل کرے، جس میں وہ بری طرح ناکام رہی ہے۔
بمبئی ہائی کورٹ میں آج سہراب الدین شیخ انکاؤنٹر معاملے میں سی بی آئی کو اپیل کرنے کا حکم دینے سے متعلق مطالبہ کرنے والی ایک عرضی پر سماعت ہو رہی تھی۔ اس سماعت کے دوران سی بی آئی نے کہا ہے کہ وہ عرضی کی مخالفت کرے گی۔ دراصل سہراب الدین معاملے میں ذیلی عدالت نے امت شاہ کو بری کرنے کا فیصلہ سنایا تھا جس کے خلاف سی بی آئی کو اپیل کرنے کا حکم دینے کے لیے یہ عرضی ہائی کورٹ میں داخل کی گئی۔ اب اس عرضی پر آئندہ سماعت 13 فروری کو ہوگی۔
ممبئی کے وکیلوں کی ایک تنظیم نے بمبئی ہائی کورٹ میں ایک مفاد عامہ عرضی داخل کرتے ہوئےاپیل کی ہے کہ وہ امت شاہ کو بری کیے جانے کے سیشن کورٹ کے فیصلے کو چیلنج پیش کرنے کے لیے سی بی آئی کو ایک ریویو پٹیشن داخل کرنے کی ہدایت دے۔ عرضی پر23 جنوری کو سماعت کے دوران سی بی آئی نے کہا کہ سہراب الدین کیس میں امت شاہ کو ذیلی عدالت کے ذریعہ بری کرنے کے فیصلے کو چیلنج نہیں پیش کرنے کے اس کے فیصلے کے خلاف داخل مفاد عامہ عرضی کی ایجنسی مخالفت کرے گی۔ ہائی کورٹ میں سی بی آئی کے وکیل انل سنگھ نے کہا کہ ’’ہم اس عرضی کی مخالفت کر رہے ہیں۔ ہمیں لگتا ہے کہ عرضی قابل قبول نہیں ہے۔ بری کیے جانے کا فیصلہ دسمبر 2014 کا تھا، اس میں طویل وقت کا بھی معاملہ ہے۔‘‘ اس کے بعد سی بی آئی کے وکیل نے وقت کا مطالبہ کیا جس پر جسٹس ایس سی دھرمادھیکاری اور بھارتی ڈونگرے کی بنچ نے معاملے کی سماعت کے لیے آئندہ تاریخ 13 فروری طے کر دیا۔
عرضی دہندہ کی جانب سے پیش ہوئے سینئر وکیل دشینت دَوے نے بنچ کے سامنے اس بات کا بھی تذکرہ کیا کہ عرضی میں ہائی کورٹ کی انتظامی کمیٹی سے اس بات کا ریکارڈ مانگا گیا ہے کہ شروع میں معاملے کی سماعت کر رہے سی بی آئی جج کا تبادلہ کیوں کیا گیا۔ اس پر جسٹس دھرمادھیکاری نے کہا ’’ہم اس بات کو عرضی دہندہ کے اوپر چھوڑتے ہیں، لیکن ہمارا ماننا ہے کہ جہاں تک ممکن ہو ادارہ (ہائی کورٹ) کو اس سے الگ رکھا جائے۔ ہم عرضی دہندہ کے وکیل دَوے سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ اس پر مناسب فیصلہ لیں۔‘‘
قابل ذکر ہے کہ سپریم کورٹ نے سہراب الدین شیخ معاملے کی سماعت گجرات سے ممبئی منتقل کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس معاملے کی تیزی سے سماعت ہونی چاہیے۔ اپنے حکم میں سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ ہائی کورٹ کی انتظامی کمیٹی یہ طے کرے گی کہ معاملہ ایسی عدالت میں جائے جو بہتر انداز میں سماعت کرے اور معاملے کی سماعت شروع سے لے کر آخر تک ایک ہی عدالت میں ہو۔
ممبئی کے وکیلوں کی ایک تنظیم کے ذریعہ اس مفاد عامہ عرضی میں کہا گیا ہے کہ سی بی آئی ایک باوقار جانچ ایجنسی ہے۔ اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی کارروائی میں قانون کے ضابطوں پر عمل کرے، جس میں وہ بری طرح ناکام رہی ہے۔ عرضی میں یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ ٹرائل کورٹ کے ذریعہ ٹھیک اسی طرح راجستھان پولس کے دو ڈپٹی سپروائزر ہمانشو سنگھ و شیام سنگھ چرن اور گجرات کے سینئر پولس افسر این کے امین کو پہلے ہی بر کر چکی ہے۔‘‘
2005 میں سہراب الدین شیخ، ان کی بیوی کوثر بی اور معاون تلسی پرجاپتی کا مبینہ فرضی تصادم میں قتل کر دیا گیا تھا۔ سی بی آئی نے فروری 2010 میں اس معاملے کی جانچ شروع کی اور اسی سال جولائی میں امت شاہ سمیت 23 ملزمین کے خلاف فرد جرم داخل کیا تھا۔ امت شاہ اس وقت گجرات کے وزیر مملکت برائے داخلہ تھے۔ معاملے کی سماعت کے دوران ٹرائل کورٹ تین آئی پی ایس افسران سمیت کئی ملزمین کو معاملے سے بری کر چکی ہے۔
سہراب الدین شیخ فرضی انکاؤنٹر معاملے سے منسلک ایک کیس کا تعلق جج بی ایچ لویا کی مشتبہ موت سے بھی منسلک ہے۔ جج لویا کی یکم دسمبر 2014 کو عجیب و غریب حالات میں دل کا دورہ پڑنے سے ناگپور میں موت ہو گئی تھی۔ جج لویا وہاں ایک دوست کی بیٹی کی شادی میں شامل ہونے گئے تھے۔ اس وقت جج لویا سہراب انکاؤنٹر معاملے کی سماعت کر رہے تھے۔
جج لویا کی موت کی غیرجانبدارانہ جانچ کا مطالبہ کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں عرضی داخل کی گئی ہے۔ 12 جنوری کو سپریم کورٹ کے 4 ججوں نے ایک پریس کانفرنس کر کے سپریم کورٹ میں اس معاملے کی سماعت اور چیف جسٹس کے رویے سے متعلق کئی سنگین ایشوز اٹھائے تھے جس کے بعد جسٹس ارون مشرا نے اس کیس سے خود کو الگ کر لیا تھا۔ سپریم کورٹ کے 4 ججوں نے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ چیف جسٹس نے منمانے طریقے سے یہ کیس جسٹس ارون مشرا کے سپرد کر دیا تھا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔