جے این یو: ’یہاں صورتحال خانہ جنگی جیسی ہے، ہمیں بچانے کے لئے کچھ کریں‘
جے این یو میں تشدد با لکل اسی انداز میں ہوا جیسے 15 دسمبر کو جامعہ اور اے ایم یو میں ہوا تھا اور جے این یو کی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا اور یہ انتہائی غیر معمولی تھا ۔
جو کچھ خبریں جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو)سے رات کو موصول ہوئی ہیں اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کل ایک تعلیمی ادارہ نہیں تھا بلکہ اہک میدان جنگ میں تبدیل ہو گیا تھا ۔ خبروں کے مطابق کل شام بی جےپی کی طلباء تنظیم اے بی وی پی کے قریبا دو سو نقاب پوش ارکان جو لاٹھی، ڈنڈوںاور راڈ سے لیس تھے انہوں نے جے این یو کے طلباء اور ٹیچرس پرحملہ کر دیا جس میں طلباء تنظیم کی صدر آئشی گھوش سمیت کئی ٹیچرس اور طلباء شدید زخمی ہوئے جو ایمس کے ٹراما سینٹر میں زیر علاج ہیں ۔پروفیسر سچتراسین اور امیت پرما سیوارن اس وقت زخمی ہوئے جب وہ نقاب پوش حملہ آوروں کے ذریعہ کئے جا رہے تشدد کو روکنے کی کوشش کر رہے تھے۔
جے این یو کے ٹیچرس نے بتایا کہ جے این یو میں تشدد با لکل اسی انداز میں ہوا جئسے 15 دسمبر کو جامعہ اور اے ایم یو میں ہوا تھا ۔ انہوں نے بتایا کہ جے این یو کی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا اور یہ انتہائی غیر معمولی تھا ۔ انہوں نے بتایا کہ وہاں موجود پولیس تماش بین کی طرح کھڑی رہی اور نقاب پوش تشدد کرتے رہے۔
ایک طالب علم نے ٹیلی گراف اخبار کو شام 5.30 بجے فون کر کے کہا ’’پولیس اور اے بی وی پی کے لوگ ہمیں مار رہے ہیں اور ہمارا پیچھا کر رہے ہیں ۔ یہاں صورتحال خانہ جنگی جیسی ہے ، ہمیں بچانے کے لئے مہربانی کرکے کچھ کرئے ۔‘‘ اقتصادیات کے پروفیسر وکاس راول نے ٹیلی گراف کو جے این یو کے گیٹ سے رات10.30بتایا’’لڑکوں کا یک گروپ ابھی بھی ہاسٹل میں گھوم رہا ہے اور وہ وہاں موجود لوگوں کو مار رہے ہیں اور توڑ پھوڑ کر رہے ہیں ۔ ہم ٹیچرس یہاں گیٹ پر جمع ہو گئے ہیں اور یہاں جب تک کھڑے رہیں گے جب تک کوئی کارروائی نہیں کی جاتی۔‘‘
اے بی وی پی نے خود کے بچاؤ کے لئے بائیں محاذ پر الزام لگایا ہے کہ انہوں نے ان کے طلباء کی پٹائی کی ہے اور ان کے25 طلباء زخمی ہو گئے ہیں ۔ دیر رات تک جے این یو کے باہر اور پولیس ہیڈ کواٹر کے باہر بڑی تعداد میں لوگ جمع رہے ۔ ادھر جے این یو کے باہر اے بی وی پی کے لوگوں نے یوگیندر یادو جیسے کئی لوگوں کے ساتھ بد تمیزی کی اور ان کے ساتھ دھکا مکی کی۔
ٹیلی گراف کی خبر کے مطابق وہاں پر کھڑے ایک داڑھی والے شخص سے پوچھا ’’کیا تم ہندو ہو اور دسرے شخص سے بھارت ماتا کی جے کا نعرہ لگانے کے لئے کہا اور پھر ان کو تھپڑ مارا اور ان کو وہاں سے کھدیڑ دیا ۔‘‘ ٹیلی گراف کے مطابق اس بھیڑ میں آر ایس ایس حامی سنسکرت کے پروفیسر ہری رام مشرا بھی موجود تھے جو وہاں کے مقامی بی جے پی کے لیڈر انل شرما کےپاس گئے اور اس سے کہا ’’طلباء دیوار کود کر جا رہےہیں اپنے لڑکوں سے کہو کہ ان کو پیچھے دھکیلیں۔‘‘ اس سارے معاملہ میں جے این یو انتظامیہ اور خا ص طور سے وائس چانسلر کہیں نظر نہیں آئے اور ان کے کردار پر سوال کھڑے کئے جا رہے ہیں ۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 06 Jan 2020, 8:04 AM