بیٹا-بیٹی نے ماں کی لاش لینے سے کیا انکار، مسلم فیملی نے سکھ خاتون کا کیا ’انتم سنسکار‘

گرپریت کور کی موت کی خبر جب بیٹا اور بیٹی کو دی گئی تو انھوں نے لاش لینے سے منع کر دیا جس کے بعد مسلم فیملی نے سکھ مذہب کے مطابق ان کی آخری رسوم ادا کی اور اب گرودوارہ میں ’شرادھ‘ کا بھی پروگرام ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آواز بیورو

پنجاب میں ایک سکھ خاتون کی موت کے بعد اس کے بیٹا اور بیٹی کی طرف سے منھ موڑنے کا حیران کرنے والا واقعہ سامنے آیا ہے۔ خوشحال زندگی گزار رہے اپنے بچوں سے الگ تکلیف میں تنہا گزارہ کر رہی دلپریت کور کا انتقال ہفتہ کے روز ہوا تھا، اور جب مقامی لوگوں نے فون کر کے ان کے بچوں کو بتایا کہ وہ اب دنیا میں نہیں رہیں، تو بیٹا اور بیٹی دونوں نے ہی لاش لینے سے انکار کر دیا۔ ایسی حالت میں ایک مسلم فیملی نے دلپریت کور کا ’انتم سنسکار‘ یعنی آخری رسومات سکھ مذہب کے مطابق ادا کی۔

بتایا جا رہا ہے کہ گرپریت کور کا تعلق مالیر کوٹلہ سے ہے۔ وہ اس وقت بھٹنڈا میں تنہا رہ رہی تھیں اور دوسرے کے گھروں میں کام کر کے گزارہ کرتی تھیں۔ گزشتہ دنوں وہ ایک تیرتھ یاترا پر گئی تھیں اسی دوران وہ بیمار پڑ گئیں۔ اسی بیماری کے سبب 15 فروری کو ان کا انتقال ہو گیا۔ ان کے پڑوسی محمد اسلم نےجب دیکھا کہ کوئی گرپریت کو دیکھنے والا نہیں، تو خود اپنےگھر والوں کے ساتھ انھیں آخری وداعی دینے کا فیصلہ کیا۔ محمد اسلم کے اس نیک کام کی خبر جب دوسروں تک پہنچی تو تعریفوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اتوار کے روز باضابطہ انھیں سپرد آتش کیا گیا اور دوسری رسمیں ادا کی گئیں۔


محمد اسلم سے جب میڈیا نے پوری تفصیل جاننے کی کوشش کی تو انھوں نے بتایا کہ ’’ہم انھیں رانی چاچی کہہ کر بلاتے تھے۔ وہ ایک کرایہ کے کمرے میں تنہا رہتی تھیں۔ ہمیں ان کی موت سے پہلے تک معلوم ہی نہیں تھا کہ ان کے رشتہ دار کون ہیں اور کہاں رہتے ہیں۔‘‘ انھوں نے مزید بتایا کہ ’’پتہ کرنے پر معلوم ہوا کہ ان کابھائی کناڈا میں رہتاہے۔ ان کے سسرال والے سنگرور ضلع کے جھنڈا گاؤں کے رہنے والے بتائے جا رہے ہیں۔ رانی چاچی کا مائکہ اور سسرال دونوں معاشی طور پر خوشحال ہے۔‘‘

گرپریت کور کے بیٹا-بیٹی سے محمد اسلم نے فون پر بات چیت بھی کی۔ اس تعلق سے انھوں نے کہا کہ ’’رانی چاچی کی موت کے بعد ان کے موبائل سے مجھے ان کے بیٹے اور بیٹی کا نمبر ملا۔ جب دونوں کو رانی چاچی کی موت کی خبر دی تو انھوں نے لاش لینے سے انکار کر دیا۔ اس کے بعد میں نے سوچا کہ خود ہی ان کی آخری رسومات سکھ مذہب کے مطابق کروں۔‘‘ محمد اسلم بتاتے ہیں کہ ’’بیٹے سے مجھے پتہ چلا کہ رانی چاچی کا 1999 میں طلاق ہو چکا تھا جس کے بعد وہ یہیں تنہا رہ رہی تھیں۔ اتنے سالوں تک ہمیں ان کے گھر والوں کے بارے میں کچھ پتہ نہیں چل پایا۔ جب فیملی نے یہاں آنے سے منع کر دیا تو ہمیں ہی ان کا انتم سنسکار کرنا پڑا۔‘‘


اب محمد اسلم کی فیملی سکھ رسوم کے مطابق گرپریت کور عرف رانی چاچی کے ’شرادھ‘ کی رسمیں بھی کرنے والی ہے۔ ’شرادھ‘ کا یہ عمل باضابطہ گرودوارہ میں ہوگا اور امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس میں گرپریت کور کے پڑوسی بڑی تعداد میں شامل ہوں گے۔

واضح رہے کہ گرپریت کور کا تعلق جس مالیر کوٹلہ سے رہا ہے، وہ سکھ-مسلم دوستی کی بہترین تاریخ اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مالیر کوٹلہ کے نواب شیر محمد خان نے مغل دور میں سکھ گروؤں کے حق میں ایک ایسا قدم اٹھایا تھا جسے سکھ طبقہ کبھی فراموش نہیں کرے گا۔ کچھ تاریخی کتابوں میں درج ہے کہ ایک ایسا وقت تھا جب مغل بادشاہوں اور سکھ گروؤں کے ماننے والوں کے درمیان زبردست جنگ کا ماحول تھا۔ اس وقت مغلوں نے گرو گوبند سنگھ کے صاحبزادوں کو دیوار میں زندہ گاڑ دینے کا حکم دیا تھا۔ گرو گوبند سنگھ کے ان صاحبزادوں کو 1705 میں سرہند میں پکڑا گیا تھا۔ لیکن مالیر کوٹلہ کے نواب نے اسے غیر اسلامی ٹھہرایا اور ایسا کرنے سے منع کیا۔ اس وقت سے ہی سکھوں اور یہاں کے مسلمانوں کے درمیان ایک ایسا خوشگوار رشتہ بنا جو ابھی تک قائم ہے۔ محمد اسلم نے گرپریت کور کی موت کے بعد جس طرح سے انسانیت کا ثبوت پیش کیا، اس نے ایک بار پھر سکھ-مسلم رشتوں کی ڈور کو مضبوط کیا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔