شیوسینا نے بی جے پی اور اجیت پوار کو ’سامنا‘ میں بنایا تنقید کا نشانہ

مہاراشٹر کے ’مہاسنگرام‘ کی گونج پارلیمنٹ سے لے کر سڑک تک سنائی دے رہی ہے۔ ایسے میں شیوسینا نے اپنے ترجمان ’سامنا‘ میں ایک بار پھر بی جے پی پر حملہ کیا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آواز بیورو

شیوسینا نے تازہ حملہ کرتے ہوئے اپنے ترجمان ’سامنا‘ میں بی جے پی اور اجیت پوار کو اقتدار کے لیے اندھا قرار دیا ہے۔ شیوسینا نے اپنے اداریہ میں لکھا ہے کہ ’’مہاراشٹر کی تشکیل اور تعمیر میں ان لوگوں نے خون تو چھوڑو پسینہ کی ایک بھی بوند نہیں بہائی ہوگی، ایسے لوگوں نے یہاں سیاسی گھوٹالہ کیا ہے۔ شیوسینا، کانگریس اور این سی پی ان تینوں پارٹیوں نے مل کر راج بھون میں 162 اراکین اسمبلی کا خط پیش کیا ہے۔ یہ سبھی اراکین اسمبلی راج بھون میں گورنر کے سامنے کھڑے رہنے کو تیار ہیں۔ اتنی صاف تصویر ہونے کے باوجود گورنر نے کس اکثریت کی بنیاد پر دیویندر فڑنویس کو وزیر اعلیٰ عہدہ کا حلف دلایا؟‘‘

شیوسینا نے گورنر بھگت سنگھ کوشیاری پر بھی نشانہ سادھا ہے۔ لکھا گیا ہے کہ ’’ایک بھگت سنگھ نے ملک کی آزادی کے لیے پھانسی کے پھندے کو چوم لیا تھا، یہ تو ہم جانتے ہیں۔ وہیں دوسرے بھگت سنگھ کے دستخط سے رات کے اندھیرے میں جمہوریت اور آزادی کو قتل گاہ میں پہنچا دیا گیا۔ مہاراشٹر میں جو کچھ بھی ہوا اسے ’چانکیہ چترائی‘ یا ’کوشیاری صاحب کی ہوشیاری‘ کہنا بھول ہوگی۔ اراکین اسمبلی کا اغوا کرنا اور انھیں دوسری ریاست میں لے جا کر قید رکھنا، یہ کیسی چانکیہ نیتی ہے؟ اجیت پوار کا سارا کھیل ختم ہو گیا تب انھوں نے کہا کہ ’شرد پوار ہی ہمارے لیڈر ہیں اور میں راشٹروادی کا ہوں‘۔ یہ شکست کی ذہنیت ہے۔‘‘


شیوسینا نے اجیت پوار کو بھی سیدھے آئینہ دکھایا ہے۔ لکھا ہے کہ ’’اگر تم شرد پوار کے بھتیجے کے طور پر گھومتے ہو تو پہلے بارہ متی سے، رکن اسمبلی عہدہ سے اور پارٹی کے سبھی عہدوں سے استعفیٰ دے کر تمھیں اپنی الگ سیاست کرنی چاہیے تھی۔ لیکن جو کچھ چچا نے کمایا، اسے چوری کر کے ’میں لیڈر، میری پارٹی‘ کہنا پاگل پن کی حد ہے۔‘‘

شیوسینا نے کہا کہ ’’ایک پرانے خط کی بنیاد دیتے ہوئے وہ این سی پی قانون ساز پارٹی کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں اور بی جے پی والے یہ بتانے میں مصروف ہیں کہ اجیت پوار درست ہیں۔ کل تک اجیت پوار اپنی تقریروں میں کہتے تھے کہ اجیت پوار کبھی جھوٹ نہیں بولتا، لیکن اب وہ روز جھوٹ بولتے ہیں۔ گورنر کو بھی انھوں نے جھوٹا خط دیا ہے۔‘‘


’سامنا‘ میں لکھا گیا ہے کہ حکومت کوئی بھی بنائے، جس کے پاس اکثریت ہے اسے یہ اختیار ہے لیکن اس کے لیے آئین، راج بھون اور سرکاری ضابطوں کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے، جس سے ان اداروں پر سے لوگوں کا اعتماد اٹھ جائے۔ کہا گیا ہے کہ ’’اگر دیویندر فڑنویس کے پاس اکثریت تھی تو اکثریت کا نمبر بنانے کے لیے نئی چانڈال چوکڑی والے ’آپریشن لوٹس‘ کی کیا ضرورت تھی؟ اس چوکڑی کا ایک رکن تو سیدھے کہتا ہے کہ بازار میں اراکین اسمبلی خود کو فروخت کرنے کے لیے تیار ہیں۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔