کورونا سے لڑنے کے لیے ’لکھنؤ کی شاہینوں‘ نے ملتوی کیا دھرنا
گھنٹہ گھر خواتین مظاہرین کا کہنا کہ جب خواتین نے آئین کو بچانے کے لیے شروع کی گئی اپنی تاریخ ساز تحریک کوملتوی کردیا ہے تو مرکزی حکومت بھی اپنی ضد اور ہٹ دھرمی کو چھوڑ کر ہمارے مطالبات پورے کرے۔
آئین کی حفاظت اور جمہوریت کی بقا کے لیے اترپردیش کی راجدھانی لکھنؤ کے حسین آباد واقع تاریخی گھنٹہ گھر پر دھرنے پر بیٹھی خواتین نے ملک کو کسی بھی ممکنہ اندیشے سے بچانے کے لیے پیر کو بڑا قدم اٹھاتے ہوئے اپنا دھرنا غیرمعینہ مدت کے لیے ملتوی کردیا۔ قومی راجدھانی کے شاہین باغ کی طرز پر قومی شہریت ترمیمی ایکٹ (سی اے اے)، قومی شہریت رجسٹر(این آرسی) اور قومی آبادی رجسٹر (این پی آر) کے خلاف ڈھائی ماہ سے زائد عرصہ سے کھلے آسمان کے نیچے دھرنے پر بیٹھی لکھنؤ کی شاہینوں نے کورونا کے بڑھتے اثرکے درمیان بزرگ عالم دین مولانا کلب صادق کی اپیل پرپولس انتظامیہ کی تحریری یقین دہانی کے بعد یہ بڑا فیصلہ کیا۔
حالانکہ تحریک کار خواتین کا کہنا ہے کہ ہندوستان میں سی اے اے، این آرسی کی شکل میں کورونا سے بڑا وائرس آچکا ہے جس سے ملک کی 85 فیصد آبادی متاثرہوگی اور ڈیٹینشن سینٹرمیں سرکاری مظالم کے سبب دم توڑنے پرمجبور ہوگی لیکن مودی حکومت اور تمام انسانیت کی خاطر ہم کورونا وائرس سے نپٹنے کے لیے اپنی تحریک فی الحال ملتوی کر رہے ہیں اور وبا کے خاتمے کے بعد وہ دوبارہ اپنے دھرنے کو آگے بڑھائیں گی۔ اس کے لیے انہوں نے اپنا دوپٹہ گھنٹہ گھر پر ہی رکھ کر کہا ہے کہ ہم گھر جا رہے ہیں مگرہمارا دوپٹہ یہیں رہے گا جس کی وجہ سے ان کا علامتی دھرنا جاری ہے۔ خواتین نے پولس کوصاف طور پر کہا ہے کہ جائے مظاہرہ سے ان کا دوپٹہ نہ ہٹایا جائے اور پنڈال کے ساتھ کسی طرح کی کوئی چھیڑچھاڑ نہ ہو۔ دھرنے کی جگہ کی حفاظت کو لے کر پولس کی یقین دہانی کے بعد تحریک کار خواتین اپنے گھروں کو واپس جانے پر راضی ہوگئیں۔
پولس کمشنر سجیت پانڈے سے بات چیت کے بعد پیر کو صبح 6 بجے دھرنا ملتوی کیا گیا۔ شاہین باغ کی طرز پر سی اے اے، این آرسی اور این پی آر کے خلاف 17 جنوری سے لکھنؤ کے تاریخی گھنٹہ گھر پر خواتین دھرنے پر بیٹھی تھیں۔ اس دوران انہیں موسم کی بے وفائی کے ساتھ ہی کئی بار پولس کی زیادتی کا بھی سامنا کرنا پڑا لیکن ان کے حوصلے اور ارادوں میں ذرا بھی لغزش نہیں آئی مگر جب انسانیت کی بات آئی تووہ لوگوں کو بچانے کے لیے اپنی تاریخ ساز تحریک ملتوی کرنے پر تیارہوگئیں۔ کورونا کے بڑھتے قہر کے درمیان انتظامیہ کے ذریعہ سمجھا بجھا کرتمام خواتین کو محفوظ ان کے گھروں تک پہنچایا گیا۔
بتا دیں کہ لکھنؤ کے پولس کمشنر سجیت پانڈے نے گھنٹہ گھر چوکی میں اتوار کو دیر رات خواتین سے بات چیت کی تھی اور کورونا سے بڑھتے ہوئے خطرے کے تئیں آگاہ کیا تھا۔ دھرنا ملتوی کرنے والی خواتین دھرنے کے مقام پر اپنا دوپٹہ، اسکارف چھوڑ گئی ہیں۔ دھرنے کی جگہ پر علامتی طور پر موجودگی کے لئے تحریک کارخواتین نے یہ قدم اٹھایا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کورونا ختم ہوگا تو وہ پھر واپس آکرمتنازعہ قانون کے خلاف اپنی تحریک کوآگے بڑھائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ اب مرکز اور ریاستی انتظامیہ کی ذمہ داری ہے کہ علامتی دھرنے کے طور پر ہم نے جو اپنے دوپٹے وہاں چھوڑے ہیں ان کی موجودہ صورتحال برقرار رکھی جائے۔
گھنٹہ گھرتحریک کی بنیادی رکن سومیا رانا نے ’قومی آواز‘سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ کل رات پولس کمشنر آئے تھے اور انہوں نے کچھ احتجاجی خواتین کی کاؤنسلنگ کی تھی جس میں وہ لگاتار کہہ رہے تھے کہ کورونا کی وجہ سے حالات بہت سنگین ہیں اس لیے انہوں نے دھرنا ختم کرنے کی اپیل کی۔ سومیا نے بتایا کہ پولس کمشنرنے تحریری طور پر یقین دہانی کرائی ہے کہ حالات معمول پر آنے کے بعد دھرنا کیا جاسکتا ہے اس لیے ہم لوگوں نے متفقہ طور پر دھرنا ملتوی کرنے کا فیصلہ کیا۔
سومیا نے کہا کہ پہلے ہم لوگوں نے سوچا تھا کہ جہاں پر دھرنا چل رہا ہے وہیں خواتین کی تعداد گھٹا کرایک دوسرے سے دوری بنا کر دھرنا جاری رکھا جائے لیکن چونکہ اسکول، کالج بند ہونے کی وجہ سے خواتین کے ساتھ بچے بھی کثیرتعداد میں پہنچنے لگے تھے اس لیے ہائی جین کا لیول کنٹرول نہیں ہو پا رہا تھا۔ پھر ہم لوگوں نے خواتین کی تعداد گھٹا دی تب حکومت کی ایڈوائزری (پانچ سے زیادہ لوگوں کے جمع ہونے پرپابندی) کی خلاف ورزی ہو رہی تھی۔ اس سلسلے میں کمشنر نے یہاں آکر بات کی اور پانچ لوگوں کے جمع ہونے کا بھی خطرہ مول نہ لینے کی بات کہی کیونکہ ایک خاتون اپنے گھر جائے گی تو اس سے بہت سارے لوگ متاثر ہوسکتے ہیں۔ اتفاق رائے کے بعد پولس کمشنرنے تحریری طور پر یقین دلایا کہ کورونا ختم ہونے کے بعد خواتین اپنی تحریک جاری رکھ سکتی ہیں۔
سومیانے بتایا کہ پولس نے یقین دلایا ہے کہ اس دوران دھرنے کے تعلق سے کسی کو بھی پریشان نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہم لوگوں کو ذمہ دار شہری کی طرح سوچنا تھا کیونکہ اتنی بڑی آفت کے وقت ہماری ذمہ داری ہے کہ آئین بچانے کے ساتھ ہی ملک کی عوام کو بھی بچایا جائے۔ ہمارا دین بھی یہی کہتا ہے کہ انسانیت کی حفاظت کرنا ہے۔ اس لیے یہ سب مدنظر رکھتے ہوئے ہم لوگوں نے فی الحال اپنی تحریک ملتوی کردی ہے لیکن جیسے ہی حالات بہترہوں گے، ہم اپنی تحریک کو آگے لے جائیں گے۔ سومیا نے امید ظاہرکی کہ اس مشکل وقت میں اگرمذہب سے اوپر اٹھ کر پورا ملک حکومت کے شانہ بشانہ کھڑا ہوا ہے تومرکزی حکومت کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ ہم لوگوں کے بارے میں بھی سوچے کہ جب خواتین نے آئین کو بچانے کے لیے شروع کی گئی اپنی تاریخ ساز تحریک کوملتوی کردیا تو مرکزی حکومت اپنی ضد اور ہٹ دھرمی کو چھوڑ کر ہمارے مطالبات پورے کرے۔
گھنٹہ گھرتحریک پرقریبی نظررکھنے والے سماجی کارکن حسن احمد نے لکھنؤ کی شاہینوں کے فیصلے کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ حالات کے پیش نظرخواتین کا دھرنا ملتوی کرنے کا فیصلہ صحیح قدم ہے کیونکہ ایسا کرنا ضروری ہوگیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت جب مسلمانوں کوغدار اور ملک دشمن ثابت کرنے کے لیے ہر ہتھکنڈے اپنا رہی ہے اور زیادہ تر میڈیا مسلمانوں کو ’ویلن‘ کی طرح پیش کررہا تھا جیسے کورونا وائرس مسلمانوں کی وجہ سے ہی پھیل رہا ہے اور صرف گھنٹہ گھرعلاقے میں ہی پھیل رہا ہے، ایسے میں یہ فیصلہ ضروری تھا۔ انہوں نے کہا کہ اس ماحول کو دیکھتے ہوئے گھنٹہ گھر پر تحریک کرنے والی خواتین کے دھرنا ملتوی کرنے کا فیصلہ انسانیت کے لیے اچھا قدم ہے کیونکہ کہیں ایسا نہ ہوکہ یہ الزام مسلمانوں پر لگا دیا جائے کہ کورونا پھیلنے میں مسلمانوں کا ہی ہاتھ تھا۔
حسن احمد نے مزید کہا کہ دیگرتمام علاقوں میں صورتحال عام ہے مگر اس علاقے میں کسی بھی شخص کو باہر نکلنے کی اجازت نہیں ہے، تمام بنیادی ضرورتوں کے مراکز بند ہیں یہاں تک کہ میڈیکل اسٹور اور راشن کی دکانیں قفل زدہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حالانکہ اب تک ہندوستان میں کوئی ایک کیس ایسا نہیں آیا ہے جو مقامی طور پر پیدا ہوا ہو، جتنے بھی معاملے سامنے آئے ہیں اس کے لیے حکومت کی لاپرواہی ذمہ دار ہے۔ حسن احمد نے صاف طور پر کہا کہ حکومت کی طرف سے اسکیننگ کا مناسب بندوبست نہیں کیا گیا تھا جس کی وجہ سے غیرممالک سے آنے والے لوگوں نے کورونا کو ملک کے تمام حصوں میں پھیلایا۔
حالانکہ کورونا وائرس کی دہائی دے کر دو روز قبل مقامی پولس نے گھنٹہ گھر پر دھرنا دے رہی خواتین کوجبراً ہٹانے کی کوشش کی تھی مگر احتجاجی خواتین کے عزائم اورعہد کے آگے اسے خالی ہاتھ لوٹنا پڑا تھا۔ جبکہ پولس کے ذریعہ طاقت کا استعمال کیے جانے پر لکھنؤ کی شاہین برہم ہوگئیں جس کی وجہ سے پولس کو سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ موقع پرکئی تھانوں کی فورس بلوالی گئی تبھی دیکھتے ہی دیکھتے ان مجاہد خواتین کی تعداد اچانک بڑھ گئی۔ ایک ہزار سے زائد خواتین نے پولس کا مقابلہ کرنے کے لیے جائے دھرنا کے چاروں طرف رسیوں کا گھیرا بنا دیا۔ دیر رات تک گھنٹہ گھر پرحالات کشیدہ بنے رہے۔ دوپہرڈھائی بجے موقع پر پہنچی پولس فورس نے لاٹھیاں پھٹکا کر مظاہرین کو ڈرانے کی کوشش کی لیکن شدید ترین سردی، بارش، ژالہ باری کو برداشت کرکے اپنے عزائم مضبوط بنانے والی خواتین پر اس کا کوئی اثرنہیں ہوا اور الٹے خواتین مزید بھڑک گئیں۔ آخرکار پولس کو اپنے قدم پیچھے کھینچنے پڑے۔ دیررات تک جائے مظاہرہ پر ہزاروں خواتین نعرے بازی کرتی رہیں۔ کشیدگی کے اندیشے کے مدنظربھاری پولس فورس تعینات کردی گئی تھی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔