شاہین باغ کی طرز پر لکھنؤ کی خواتین بھی سراپا احتجاج
سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کے خلاف ملک کے مختلف حصوں میں جاری احتجاج کے درمیان راجدھانی لکھنؤ کے چوک علاقے میں گھنٹہ گھر پر جمعہ کو شروع ہونے والا احتجاج سنیچر کو بھی جاری رہا
لکھنؤ: متنازع شہریت (ترمیمی) قانون، این آر سی اور این پی آر کی مخالفت میں ملک کے مختلف حصوں میں جاری احتجاج کے درمیان اترپردیش کی راجدھانی لکھنؤ کے چوک علاقے میں گھنٹہ گھر پر جمعہ کو شروع ہونے والا احتجاج سنیچر کو بھی جاری رہا۔ سرد ہوائیں اور انتظامیہ کی مبینہ جانبدارانہ کاروائی بھی ان کو جائے احتجاج سے جنبش نہ دلا سکی۔
سنیچر کو بھی اس قانون کے خلاف اپنی مخالفت درج کرانے کے لئے جائے احتجاج پر خواتین و بچے اپنے ہاتھوں میں ترنگا اور پلے کارڈ لئے ہوئے دکھائے دئیے۔گذشتہ کل جمعہ کی نماز کے بعد شروع ہونے والے احتجاج میں انتظامیہ کی جانب سے ساری لائٹین بند کرانے کے باجود مظاہرین نے اپنی موبائل کی روشنی میں رام پرساد بسمل کی نظم ’سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے۔دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے۔اور انقلاب زندہ باد کے نعرے لگائے۔
احتجاج میں موجود بھاری تعداد میں بچوں کے ہاتھوں میں پلے کارڈ اور تختیاں ہیں جن پر’ہندو مسلم سکھ عیسائی۔آپس میں ہیں بھائی ہیں‘۔مذہب پر مبنی شہریت منظور نہیں جیسے نعرے آویزاں ہیں۔مظاہرے میں موجود طلبہ لیڈر پوجا شکلا نے میڈیا نمائندوں سے بات چیت میں کہا کہ لکھنؤ میں سی اے اے،این آر سی اور این پی آر کے خلاف جمعہ کو یہ احتجاج چند مردوخاتون کی موجودگی میں شروع ہوا۔
طلبہ لیڈر کے مطابق جیسے جیسے مظاہرین کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا انتظامیہ نے بڑی تعداد میں پولیس اہلکار کو تعینات کردیا۔پولیس کی بڑھتی تعداد دیکھ کر احتجاج کے لئے آئیں خواتین نے مرد حضرات کو جائے احتجاج سےجانے کو کہا کیونکہ وہ پولیس سے کسی بھی قسم کا ٹکراؤنہیں چاہتی تھی۔آدھی رات میں پولیس نے علاقے کی تمام لائٹیں بند کرادیں۔عوامی بیت الخلاء میں تالا ڈلوا دیا گیا باوجود اس کے پوری رات لوگ کمبل اور کھانے کے ساتھ آتے رہے ۔
محترمہ شکلا نے بتایا کہ آس پاس کے لوگوں نے ہمیں اپنی ذاتی بیت الخلاء استعمال کرنے کی سہولت فراہم کی اور ہم پوری رات کھلے آسمان کے نیچے موبتی جلا کر بیٹھے رہے۔آپ یہاں مختلف سیاسی نظریات کے حامل افراد کو تلاش سکتے ہیں لیکن اس کی خوبصورتی یہ ہے کہ یہ عوامی تحریک ہے۔یہاں سے ایک نئی لیڈر شپ ابھر کر سامنے آئے گی۔
سی اے اے کے خلاف غیر معینہ احتجاج کا اعلان کرنے والی خواتین کے مطابق سی اے اے کے تحت مسلموں کو شہریت نہ دینے کی شق ڈال کر حکومت منظم انداز میں ہندو۔مسلم میں تفریق ڈال کر اپنی سیاسی روٹی سینکنا چاہتی ہے۔اس قانون کا نافذ کر کے مسلموں کے جذبات سے کھیلا جارہا ہے۔این آر سی نافذ کر کے حکومت ایک بار پھر غریب عوام کو لائن میں کھڑا کرنی کے درپے ہے۔ اس کا سب سے زیادہ منفی اثر غریبوں پر پڑے گا اور وہ اپنی شہریت کے لئے در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوگا۔
قابل ذکر ہے کہ لکھنؤواقع گھنٹہ گھر پر جمعہ کی نماز کے بعد مسلم خواتین اپنے بچوں کے ساتھ احتجاج کے لئے جمع ہوئی تھیں۔پوری رات سخت کہرے اور ٹھنڈ میں خواتین کھلے آسمان کی نیچے بیٹھی رہیں۔رات میں خواتین کی تعداد میں کم رہی لیکن صبح ہوتے ہیں جیسے جیسے دن چڑھتا گیا مظاہرین کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیااور کالے قانون کے خلاف اپنا احتجاج درج کرانے کے لئے لوگ جمع ہوتے رہے۔
وہیں ضلع پولیس نے دیر شام خواتین کو سمجھانے کی کوشش لیکن خواتین کسی بھی صورت پر احتجاج ختم کرنے تیار نہ ہوئیں۔گھنٹہ گھر کے آس پاس علاقوں میں بھارتی تعداد میں سیکورٹی اہلکار کو تعینات کیا گیا ہے۔احتجاج میں موجود خواتین نے پولیس پر جانبدارانہ کاروائی کا الزام لگایا ہے تو وہیں انہوں نے ضلع کے ڈی ایم کو لکھے اپنے خط میں ڈی ایم سے ان کے احتجاج میں تعاون پیش کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔مظاہرین کے مطابق جب تک حکومت قانون کو واپس نہیں لے گی ان کا احتجاج جاری رہے گا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔