شہریت ترمیمی بل: جامعہ میں طلباء کے مظاہرے کے بعد اوکھلا میں خوف و تناؤ
شہریت ترمیمی بل کے خلاف جامعہ میں جو کل طلباء نے مظاہرہ کیا تھا جس میں پولیس نے لاٹھی چارج کیا تھا اس کے بعد اوکھلا میں خوف اور تناؤ کا ماحول ہے
شہریت ترمیمی قانون کی مخالفت میں پارلیمنٹ کی جانب کوچ کر رہے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلباء کو جمعہ کے روز یونیورسٹی کے احاطے کے باہر پولیس کے ساتھ جھڑپوں کا سامنا کرنا پڑا جس میں کئی طلباء زخمی ہو ئے۔اس واقعہ کے بعد جنوبی دہلی کے علاقہ اوکھلا میں خوف اور تناؤ کا ماحول ہے۔ کل شام سے جامعہ نگر، ذاکر نگر، شاہین باغ اور بٹلہ ہاؤس کے علاقوں میں بے چینی نظر آئی اور لوگ اپنے قریبیوں کو لے کر بے چین نظر آئے۔
یونیورسٹی کے ایک طالب علم نے بتایا کہ طلبا ء کے مظاہرے کو روکنے کے لئے پولیس نے پہلے پانی کی بوچھاریں کی اور پھر آنسو گیس کے گولے داغے ۔ اس کے بعد پولیس نے طلباء پر لاٹھی چارج کیا جس میں 50 سے زائد طلباء زخمی ہوئے ہے ۔ زخمیوں کو ہولی فیملی اسپتال میں داخل کرایا گیا ہے۔طلباء کا کہنا ہے کہ آئین کو بچانے کے لئے ان کی جدوجہد مسلسل جاری رہے گی۔ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف جامعہ گرلز ہاسٹل کی طالبات نے گزشتہ شام احتجاج کیا تھا ۔ بڑی تعداد میں طلباءو طالبات آج یونیورسٹی کے مرکزی دروازے پر جمع ہو کر پارلیمنٹ کی جانب روانہ ہوئے تب ہی مرکزی دروازے سے کچھ دوری پرپولیس کے ساتھ ان کی جھڑپیں ہوئیں ۔
اس دوران سنٹرل یونیورسٹی ٹیچر ایسوسی ایشن نے جامعہ کے طلباء پر لاٹھی چارج کی سخت مذمت کی ہے۔ایسوسی ایشن کے صدر راجیو رے اورسکریٹری ڈی کے لوبيال نے کہا کہ پولیس نے پرامن مظاہرہ کر رہے طلبا پر لاٹھی چارج کرکے انہیں زخمی کیا۔ جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو) کے طالب علموں کے ساتھ بھی پولیس نے ایسا ہی کیا۔ جمہوریت میں سب کو احتجاج کا حق ہے۔
دوسری جانب پولیس کے ایک افسر نے بتایا کہ جامعہ کے طلبا جنتر منتر جانے کی کوشش کر رہے تھے لیکن طالب علموں کو یونیورسٹی کے احاطے کے باہر ہی روکنے کی کوشش کی گئی لیکن طلبا مشتعل ہو گئے۔اس دوران طلبا نے پولیس پر پتھر پھینکے۔تحریک کرنے والےطلباء نے بیريكیٹ توڑ کر آگے بڑھنے کی کوشش کی۔ اس پرتشدد جھڑپ میں 12 پولیس اہلکار زخمی ہو گئے جن میں سے دو کو آئی سی یو میں رکھا گیا ہے جہاں ان کی حالت مستحکم ہے۔
پولیس افسر نے بتایا کہ مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے آنسو گیس کے گولے چھوڑے ۔ 42 طلبا کو حراست میں لیا گیا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 14 Dec 2019, 9:08 AM