مختار عباس کی بے ضابطگی عیاں، عدالت کے حکم پر جھارکھنڈ حج کمیٹی تحلیل

رپورٹ کے مطابق اقلیتی امور کے مرکزی وزیر مختار عباس نقوی بھی اس حج کمیٹی کے رکن تھے۔ الزام ہے کہ اپنے جان پہچان کے لوگوں کو انہوں نے حج کمیٹی کا رکن بنا دیا۔

تصویر بشکریہ بیونڈ ہیڈلائنز
تصویر بشکریہ بیونڈ ہیڈلائنز
user

قومی آواز بیورو

جھارکھنڈ ہائی کورٹ نے ریاستی حج کمیٹی کو تحلیل کرنے کا حکم سنایا ہے اور حکم دیا ہے کہ نئی حج کمیٹی تشکیل دی جائے۔ ہائی کورٹ نے حج کمیتی قانون 2002 پر عمل نہ کرنے کی بنا پر یہ فیصلہ سنایا ہے۔

ہائی کورٹ کے اس فیصلہ کو اقلیتی امور کے مرکزی وزیر مختار عباس نقوی کے لئے جھٹکے کے طور پر دیکھا جا رہے۔ ’بیونڈ ہیڈلائز‘ ویب سائٹ پر شائع ایک رپورٹ کے مطابق سماجی کارکن شمیم علی نے حج کمیٹی کے خلاف عرضی داخل کی تھی۔

اس معاملہ کی سماعت کرتے ہوئے جسٹس راجیش شنکر نے حکم دیا کہ جھارکھنڈ اسٹیٹ حج کمیٹی کو تحلیل کر کے جلد از جلد نئی کمیٹی تشکیل دی جائے۔

عرضی گزار شمیم علی کی جانب سے عدالت میں پیش ہوئے وکیل مختار خان نے اپنا موقف رکھتے ہوئے کہا کہ حج کمیٹی قانون-2002 کی دفعہ-18 کے مطابق مقامی بلدیہ کوٹے سے تین مسلم ارکان کو کمیٹی میں شامل کیا جانا لازمی ہے لیکن اس میں دو فرضی وارڈ کونسلروں کو ارکان بنا دیا گیا۔ اسی طرح مسلم عالم دین کوٹے سے بھی تین ارکان بھی کمیٹی میں شامل کیا جانا تھا لیکن محض دو عالم دین کو ہی ارکان بنایا گیا۔ علاوہ ازیں وہ دونوں ارکان عالم دین ہیں یا نہیں اس کا بھی نوٹیفکیشن میں حوالہ نہیں دیا گیا ہے۔

پبلک ایڈمنسٹریشن، فنانس، ایجوکیشن، کلچر یا سوشل ورک کے کوٹے سے وابستہ 5 لوگوں کو ارکان بنایا جانا تھا لیکن 7 لوگوں کو ارکان بنا دیا گیا اور نوٹیفکیشن میں یہ بھی واضح نہیں کیا گیا کہ کون سا رکن کس کوٹے سے وابسہ ہے۔

رکن پارلیمنٹ، اسمبلی، قانون ساز اسمبلی سے تین ارکان کو لیا جانا تھا۔ راجیہ سبھا اور قانون ساز کونسل سے دو ارکان کو لیا گیا جبکہ قانون ساز کونس کے کوٹے کو اسمبلی سے پُر کیا جانا تھا جس طرح سابقہ حکومت میں کیا گیا تھا لیکن وہ کوٹا خالی چھوڑ دیا گیا۔

حکومت کی طرف سے موقف رکھتے ہوئے سالیسٹر جنرل اجیت کمار نے عدالت میں خود یہ اعتراف کیا کہ عرضی گزار کی جانب سے حج کمیٹی کے تعلق سے جو سوال اٹھائے گئے ہیں وہ صحیح ہیں۔ اجیت کمار نے کہا کہ حکومت کی جانب سے حج کمیتی کی تشکیل میں چوک ہوئی ہے اور قانون پر صحیح طرح سے عمل نہیں کیا گیا ہے۔

عرضی گزار شمیم علی نے کہا کہ 20 جولائی 2018 کو ہائی کورٹ کے جسٹس راجیش شنکر نے تمام باتوں کو سننے کے بعد حکومت کو جواب داخل کرنے کو کہا تھا۔ اس کے بعد 30 اکتوبر 2018 کو سماعت میں حکومت نے جوں توں کر کے جواب داخل کیا، جس سے عدالت نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے ارکان کی تقرری کے حوالہ سے حلف نامہ داخل کرنے کو کہا۔ اس معاملہ میں آج بھی عدالت کے حکم پر عمل نہیں کیا گیا لیکن حکومت نے یہ اعتراف کر لیا ہے کہ ان کی طرف سے غلطی ہوئی ہے۔

شمیم نے کہا کہ کہانی صرف جھارکھنڈ کی ہی نہیں ہے بلکہ دیگر ریاستوں میں بھی کمیٹی تشکیل دیتے وقت حج قانون 2002 پر عمل نہیں کیا گیا ہے۔ وہاں بھی قوم کے رہنماؤں اور تعلیم یافتہ طبقہ سے آگے آکر ان بے ضابطگیوں کو درست کرانے کی ضرورت ہے ورنہ یہ حج کمیٹیاں غلط لوگوں کے ہاتھوں میں رہیں گی اور ہر سال حج پر جانے والے ہندوستانی دختران اور فرزندان توحید پریشان ہوتے رہیں گے۔

رپورٹ کے مطابق اقلیتی امور کے مرکزی وزیر مختار عباس نقوی بھی اس حج کمیٹی کے رکن تھے۔ الزام ہے کہ اپنے جان پہچان کے لوگوں کو انہوں نے حج کمیٹی کا رکن بنا دیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 13 Dec 2018, 11:05 PM