جامعہ کے زخمی طلباء و طالبات کے پولس پر سنگین الزامات
جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پولیس کی مبینہ بربریت کو بیان کرتے ہوئے طلباء اور طالبات نے الزام لگا یا ہے کہ پولیس پر طالبات کے سینے اور پیٹ پر ہی لاتیں نہیں ماریں بلکہ ان کے حساس اعضا کو بھی نہیں بخشا
نئی دہلی: جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پولیس کی مبینہ بربریت کو بیان کرتے ہوئے طلباء اور طالبات نے الزام لگا یا ہے کہ پولیس پر طالبات کے سینے اور پیٹ پرہی لاتیں نہیں ماریں بلکہ ان کے حساس اعضا کو بھی نہیں بخشا۔
قومی شہریت (ترمیمی)قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف احتجاج اور پولس کی اجازت کے بغیر احتجاجی مارچ کرنے کی کوشش کرنے والے احتجاجیوں کو روکنے کے لئے پرسوں پولس کو لاٹھی چارج کرنا پڑی تھی جس میں کئی طلبا اور طالبات کو چوٹیں آئیں اور انہیں داخل اسپتال کرنا پڑا۔طلبا کا دعوی ٰ ہے کہ مارچ کی پر امن کوشش کرنے والے احتجاجیوں نے ایسی کوئی غیر قانونی حرکت نہیں کی تھی کہ اُن پر پرتشدد طریقے سے قابو پانے پر پولس کو مجبور ہونا پڑتا۔
پندرہ دسمبر کو بھی پولس زیادتی کے الزام کی زد میں آئی تھی جس کے خلاف شکایت پر دہلی ہائی کورٹ نے جامعہ میں پولیس کارروائی کے بارے میں عدالت کی نگرانی میں کسی کمیٹی یا خصوصی تحقیقاتی ٹیم کے ذریعہ تحقیقات کی درخواست پر کل منگل کو مرکز سے جواب طلب کیا ہے۔
10 فروری کے واقعے میں متاثرطلبہ و طالبات نے یو این آئی اردو سروس سے بات چیت میں دعویٰ کیا کہ پولیس نے کیمرے کے قید میں آنے سےسے بچنے کے لئے احتجایوں کو گرا کر ان پر لاٹھیاں برسائیں ۔ نتیجے میں طلبا اور طالبات اور لڑکیوں کے حساس اعضا میں چوٹیں آئیں۔
جامعہ نگر کے ایک پرائیویٹ استپال میں زیر علاج جامعہ ملیہ اسلامیہ کی انگلش آنر کی ایک طالبہ نے اس استدلال کے ساتھ کہ مارچ کی کوشش پر امن تھی ، الزام لگایا کہ بریکیڈ کے سامنے پہنچنے پر پولیس نےان کو بھدی بھدی اور مذہبی منافرت سے لیس گالیاں دینی شروع کی اورکہاکہ ’’تم لوگ پاکستان چلے جاؤ، یہاں تم لوگوں کا وہی حال کریں گے جو ہم نے کشمیر میں وہاں کے لوگوں کے ساتھ کیا ہے‘‘۔
اس طالبہ نے یہ الزام بھی لگایا کہ ایک پولس والے نے جہاں اس کے منھ پر طمانچہ مارتے ہوئے کہا تھا کہ’’تم کو آزادی چاہئے،یہ لو آزادی‘‘ وہیں ایک دوسرا پولیس کانسٹبل اس کی جانگ پر جوتا سمیت چڑھ گیا تھا۔
جامعہ کی ہی ایک اور طالبہ نے نے بھی پولس پر اسی طرح کی زیادتیوں کے الزامات لگائے اور کہا کہ اس کا فون تک چھین لیا گیا تھا۔پولس لاٹھی چارج میں زخمی ہونے والوں نے پولیس پر اسپرے کرنے کا بھی الزام لگایا اور کہا کہ اس چھڑکاو کی زد میں آنے والے بے ہوش ہوگئے تھے۔
جامعہ نگر کے پرائیویٹ اسپتال میں داخل پانچ چھ طالب علموں نے بھی پولس کی اسی طرح کی مبینہ زیادتیوں کا الزام لگا یا اور دعوی کیا کہ مارچ کی پر امن کوشش کرنے والے احتجاجیوں ایسی کوئی غیر قانونی حرکت نہیں کی تھی کہ ان پر پرتشدد طریقے سے قابو پانے پر پولس کو مجبور ہونا پڑتا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔