ساورکر نہ ہی ’ویر‘ تھے اور نہ ہی ’محب وطن‘، بھارت رتن دینا بدقسمتی ہوگی: بھوپیش بگھیل

چھتیس گڑھ کے وزیر اعلیٰ بھوپیش بگھیل کا ماننا ہے کہ ہندو مہاسبھا کے لیڈر ونایک دامودر ساورکر کو ’ویر‘ کہنا مناسب نہیں۔ انھوں نے کہا کہ ساورکر جیسے انسان کو بھارت رتن دینے کی پیشکش کرنا مناسب نہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

وشو دیپک

میڈیا کے ایک بڑے حصے کے ذریعہ ساورکر کو ’ویر‘ کہہ کر مخاطب کیے جانے کی چھتیس گڑھ کے وزیر اعلیٰ بھوپیش بگھیل نے سخت الفاظ میں تنقید کی ہے۔ انھوں نے ’قومی آواز‘ سے خاص بات چیت کے دوران کہا کہ ’’ساورکر جیسے انسان کو، جس کا گاندھی جی کے قتل میں سیدھا ہاتھ ہے، بھارت رتن دینے کی پیشکش کرنا بدقسمتی اور بے حد حیران کرنے والا ہے۔‘‘

وزیر اعلیٰ بگھیل کا کہنا ہے کہ ساورکر کو ’ویر‘ کہنا اور پھر بھارت رتن دینے کی پیشکش کرنا فرقہ پرستی کی گندی تاریخ کو مٹانے کی کوشش کرنے جیسا عمل ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ’’یہ آر ایس ایس بی جے پی کے ذریعہ اسپانسرڈ مہم ہے۔ جس ساورکر نے اس وقت انگریزوں سے معافی مانگی جب پورا ملک مہاتما گاندھی کی قیادت میں برطانوی سامراجواد سے جدوجہد کر رہا تھا، اس ساورکر کو ’ویر‘ کیسے کہا جا سکتا ہے؟‘‘


غور طلب ہے کہ انڈمان نکوبار کی سیکولر جیل میں بند ساورکر نے 1911 سے لے کر 1920 کے درمیان چار بار انگریزوں سے تحریری معافی مانگی تھی۔ تاریخی دستاویزوں کے مطابق سیلولر جیل میں پہنچنے کے ٹھیک ایک مہینے بعد ہی ساورکر نے 30 اگست 1911 کو انگریزوں کو پہلا معافی نامہ لکھا تھا، جسے چار دن بعد ہی 3 ستمبر کو برطانوی حکومت نے خارج کر دیا تھا۔ اس کے دو سال بعد 1913 میں ساورکر نے پھر سے ایک بار انگریزوں کو معافی نامہ لکھا۔ ساورکر نے خود اپنے ہاتھوں سے گورنر جنرل کونسل کے رکن سر رینالڈ کراڈوک کو اپنا معافی نامہ سونپا تھا، لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔

حیرانی کی بات یہ ہے کہ اس معافی نامہ میں ساورکر نے خود کو انگریزی حکومت کی اولاد بتایا تھا۔ اس کے چار سال بعد 1917 میں ساورکر نے ایک بار پھر قیدیوں کو دیئے جانے والے معافی نامہ کی بنیاد پر رحم کی عرضی پیش کی تھی۔ چوتھی بار جولائی 1920 میں ساورکر نے ماضی کی انقلابی سرگرمیوں کے لیے انگریزوں سے معافی مانگتے ہوئے آزادی کی اپیل کی تھی۔


یہ بات کم ہی لوگوں کو پتہ ہے کہ ساورکر کی چوتھی عرضی کے خارج ہونے کے بعد انڈین نیشنل کانگریس سمیت مہاتما گاندھی اور بال گنگا دھر تلک جیسے لیڈروں نے ساورکر کی ’بلا شرط رہائی‘ کا مطالبہ کیا تھا۔

تاریخ کا حوالہ دیتے ہوئے بگھیل نے کہا کہ ہندو مہاسبھا اور ساورکر جیسے لوگوں نے شروع سے ہی فرقہ پرستی کے بیج بونے شروع کر دیئے تھے جس کانتیجہ آگے چل کر یہ ہوا کہ مسلم لیگ نے پاکستان کا مطالبہ کیا اور بالآخر 1947 میں ملک تقسیم ہو گیا۔ ہندو مہاسبھا اور ساورکر کو دو ملکی نظریہ کا اصل پیروکار بتاتے ہوئے بگھیل نے کہا کہ ’’آر ایس ایس اور ساورکر جیسوں کی وجہ سے نہ صرف ملک تقسیم ہوا بلکہ مہاتما گاندھی کا قتل بھی ہوا۔ گاندھی جی کے قتل میں ساورکر کا ہاتھ تھا۔ ایسے ساورکر کو بھارت رتن دینے کی پیشکش کرنا افسوسناک ہے۔‘‘


گاندھی اور ساورکر کے بہانے کانگریس اور بی جے پی کی سوچ کا فرق نشان زد کرتے ہوئے بگھیل نے کہا کہ کانگریس گاندھی کو اپنا رول ماڈل مانتی ہے جب کہ بی جے پی کے رول ماڈل ساورکر اور گوڈسے ہیں۔ اسی سے پتہ چلتا ہے کہ بی جے پی کتنی حب الوطن ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔