سنبھل تشدد: مسجد کمیٹی چیف نے انتظامیہ پر عائد کیے سنگین الزامات، پولیس نے حراست میں لے کر کی پوچھ تاچھ
مسجد کمیٹی چیف ظفر علی نے کہا کہ ایس ڈی ایم وندنا مشرا اور پولیس سرکل افسر انوج کمار کی وجہ سے ہی ہنگامہ ہوا اور انہی کی وجہ سے اموات ہوئیں۔
اتر پردیش کے سنبھل واقع شاہی جامع مسجد میں اتوار کے روز ہوئے سروے کو لے کر جاری ہنگامہ کے درمیان آج شام مسجد انتظامیہ کمیٹی کے چیف ظفر علی نے پریس کانفرنس کیا۔ اس پریس کانفرنس میں انھوں نے مسجد احاطہ کے سروے کے دوران پیدا ہوئے تشدد کے لیے مقامی پولیس اور انتظامیہ کو ذمہ دار ٹھہرایا اور کہا کہ مسجد کی کھدائی کی افواہ پھیلنے سے بھیڑ مشتعل ہوئی اور حالات خراب ہو گئے۔
اس پریس کانفرنس کے بعد پولیس نے مسجد انتظامیہ کمیٹی چیف ظفر علی کو حراست میں لے لیا۔ حراست میں لینے کے بعد انھیں تھانہ لے جا کر پوچھ تاچھ کی گئی۔ ساتھ ہی سنبھل کے ضلع مجسٹریٹ اور ایس پی نے ظفر علی کے بیان میں لگائے گئے الزامات کو غلط بتایا۔
اس سے قبل ظفر علی نے پریس کانفرنس میں سنبھل تشدد سے متعلق کہا کہ ’’مسجد کا جو دوبارہ سروے ہوا، وہ عدالت کے حکم سے نہیں بلکہ صرف ضلع مجسٹریٹ کے حکم پر ہوا تھا۔ یہ سروے غیر قانونی طریقے سے ہوا تھا۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’اس حادثہ کے قصوروار سنبھل ایس ڈی ایم وندنا مشرا اور پولیس سرکل افسر انوج کمار ہیں۔‘‘ اس سوال پر کہ ان افسران کا کیا قصور ہے، علی نے جواب دیا کہ ’’ایس ڈی ایم نے ضد کر کے وضو خانہ کا پانی نکلوایا، جبکہ ضلع مجسٹریٹ اور پولیس سپرنٹنڈنٹ نے کہا تھا کہ ڈنڈے سے پانی کی گہرائی ناپ لی جائے۔ لیکن ایس ڈی ایم کی ضد پر جب حوض کا پانی نکالا گیا تو باہر جمع لوگوں میں غلط فہمی پیدا ہوئی کہ مسجد میں کھدائی کی جا رہی ہے۔ اسی سے وہ مشتعل ہو گئے۔‘‘
ظفر علی نے الزام عائد کیا کہ ’’جب مسجد کے باہر بھیڑ جمع ہو رہی تھی تو پولیس سرکل افسر انوج کمار نے ان لوگوں کو گالیاں دیں اور لاٹھی چارج کروا دیا، جس سے لوگوں میں افرا تفری مچ گئی۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’میں نے خود پولیس کو بھیڑ پر گولیاں چلاتے دیکھا ہے۔‘‘ ساتھ ہی انھوں نے کہا کہ ’’ایس ڈی ایم وندنا مشرا اور پولیس سرکل افسر انوج کمار کی وجہ سے ہی جھگڑا ہوا اور انہی کی وجہ سے اموات ہوئی ہیں۔‘‘ پریس کانفرنس میں ظفر علی نے وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ سے گزارش کی کہ واردات میں ہلاک بے گناہ نوجوانوں کے اہل خانہ کو مناسب معاوضہ دیں۔
دوسری طرف جامع مسجد کمیٹی چیف ظفر علی کے بیان پر سنبھل کے ضلع مجسٹریٹ ڈاکٹر راجندر پنسیا نے پریس کانفرنس کر کہا کہ ’’انھوں نے ایک گمراہ کن بیان دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ انھیں سروے کے بارے میں جانکاری نہیں دی گئی تھی۔ عدالت کا حکم دوپہر 2.38 بجے (24 نومبر کو) آیا اور پھر ہم شام تقریباً 5.30 بجے مسجد پہنچے۔ ایڈووکیٹ کمشنر کے حکم کی ایک کاپی حاصل ہوئی اور انھوں نے اس پر دستخط کیے۔ ظفر صاحب نے کہا کہ انھوں نے پولیس کو گولیاں چلاتے دیکھا، تو میں ان سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا وہ سروے کرانے میں مصروف تھے یا گولی باری دیکھ رہے تھے۔ وہ 10.30 بجے سے 10.45 بجے کے درمیان سروے کرا رہے تھے، جبکہ یہ سب (ہنگامہ) 10 بجے سے 11 بجے کے درمیان ہوا۔‘‘
سنبھل ضلع مجسٹریٹ کا کہنا ہے کہ ’’اپنے تازہ بیان میں ظفر علی نے کہا ہے کہ انھوں نے پولیس کو اپنے ہتھیار استعمال کرتے دیکھا، پھر انھوں نے کہا کہ پولیس دیسی ہتھیار استعمال کر رہی تھی۔ پھر بعد میں کہا کہ انھیں نہیں پتہ کہ پولیس کون سے ہتھیار استعمال کر رہی تھی۔ سب سے گمراہ کن بات جو انھوں نے کہی وہ یہ کہ وضو کے حوض کا پانی خالی کیا گیا۔ ظفر صاحب نے یہ بھی کہا کہ ہر جمعہ کو اس کا پانی خالی کیا جاتا ہے۔ حقیقت میں وضو کے حوض کی صرف فوٹوگرافی اور ویڈیوگرافی ہونی تھی۔ وہاں کوئی پیمائش نہیں کی گئی۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ضلع مجسٹریٹ نے سروے کی اجازت دی، جو غلط ہے، کیونکہ میں نے کبھی کسی سروے کی اجازت نہیں دی۔ ان کے بیانات متضاد ہیں۔‘‘
واضح رہے کہ سنبھل کی جامع مسجد میں عدالت کے حکم پر اتوار کو کیے جا رہے سروے کی مخالفت کر رہے مظاہرین پولیس سے متصادم ہو گئے۔ اس دوران 4 اشخاص کی موت ہو گئی تھی۔ اس تشدد، گولی باری اور پتھراؤ میں ایس ڈی ایم رمیش چندر سمیت مجموعی طور پر 20 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ اس معاملے میں اب تک 7 مقدمات درج کر 25 لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔