سنبھل جامع مسجد تنازعہ: ’اس طرح کے سروے سے ملک کی سیکولر بنیادیں کمزور ہو رہیں‘، مولانا محمود مدنی کا اظہار فکر

مولانا محمود مدنی نے جامع مسجد کے سروے کو افسوسناک قرار دیا اور کہا کہ اس سے ملک کی جمہوریت کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے مسجد کی کمیٹی کو یقین دلایا کہ اسے ہر ممکن قانونی مدد دی جائے گی۔

<div class="paragraphs"><p>سنبھل جامع مسجد، تصویر&nbsp;<a href="https://x.com/karishma_aziz97">@karishma_aziz97</a></p></div>

سنبھل جامع مسجد، تصویر@karishma_aziz97

user

قومی آواز بیورو

اتر پردیش کے سنبھل میں واقع جامع مسجد کو لے کر جاری تنازعہ طول پکڑتا جا رہا ہے۔ ہندو فریق کے ذریعہ اسے مندر بتاتے ہوئے گزشتہ دنوں عرضی عدالت میں داخل کی گئی تھی اور 19 نومبر کو یہ عرضی منظور بھی کر لی گئی۔ اتنا ہی نہیں مسجد کا سروے کرنے کی ہدایت دی گئی جس کے بعد مسلم طبقہ میں شدید ناراضگی ہے۔ اس تعلق سے جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا محمود مدنی کا بیان سامنے آیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کے تاریخ کے ’گڑے مُردے اکھاڑنے‘ سے ملک کو کافی نقصان پہنچ رہا ہے۔

دراصل ہندو فریق نے دعویٰ کیا ہے کہ جہاں پر جامع مسجد قائم ہے، وہاں پر پہلے ’شری ہری مندر‘ تھا۔ اس معاملے کو لے کر ہندو فریق عدالت پہنچ گئی ہے۔ عدالت نے مسجد کے پورے احاطے کا سروے کرانے کا حکم دیا اور ساتھ ہی عدلیہ نے اس بات پر بھی زور دیا کہ سروے کی رپورٹ 29 نومبر تک عدالت کے سامنے پیش کر دی جائے۔ عدالت کے حکم کے بعد منگل کی شام کو ایڈوکیٹ کمیشن کی ٹیم نے پولیس اور انتظامی افسران کی موجودگی میں مسجد کے اندر سروے کیا۔


اس معاملے میں مولانا محمود مدنی نے کہا کہ تاریخ کی جھوٹ اور سچ کو ملا کر فرقہ پرست عناصر ملک کے امن و امان کے دشمن بنے ہوئے ہیں۔ پرانے ’گڑے مردے اکھاڑنے‘ سے ملک کی سیکولر بنیادیں کمزور ہو رہی ہیں۔ ساتھ ہی تاریخی طور پر گزرے ہوئے واقعات کو دوبارہ بیان کرنے کی کوشش کرنا، ملک کی سالمیت کے لیے بہتر نہیں ہے۔ ایودھیا کی بابری مسجد کا ذکر کرتے ہوئے مولانا مدنی نے کہا کہ ملک میں عبادت گاہ (خصوصی دفعات) ایکٹ 1991 نافذ کیا گیا تھا تاکہ مسجد و مندر تنازعات کا مرکز نہ بن پائیں۔

مولانا محمود مدنی نے اس معاملے میں فکر اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہر گزرتے دن کے ساتھ کہیں نہ کہیں مسجد کا تنازعہ کھڑا کیا جا رہا ہے۔ پھر سچائی جاننے کے نام پر عدالتوں سے سروے کی اجازت لے لی جاتی ہے۔‘‘ انہوں نے آگے کہا کہ ’’ہم عدالت کے فیصلے کی عزت کرتے ہیں، لیکن عدالتوں کو بھی فیصلہ دیتے ہوئے اس بات کا خیال رکھنا ہو گا کہ ان کے فیصلے کا سماج پر کیا اثر پڑے گا۔‘‘ اس درمیان مولانا مدنی نے جامع مسجد کمیٹی کو یہ بھروسہ دلایا ہے کہ جمعیۃ علماء ہند مسجد کمیٹی کو ہر ممکن قانونی مدد کے لیے تیار ہے۔


قابل ذکر ہے کہ حالات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے انتظامیہ نے مسجد کے باہر پولیس کی ایک بھاری نفری تعینات کر دی ہے۔ جامع مسجد کے صدر دروازہ کے سامنے آر آر ایف کے جوانوں کو تعینات کیا گیا ہے۔ مسجد کی طرف جانے والی سڑکوں پر بیریکیڈس لگا کر پولیس اہلکار تعینات کیے گئے ہیں۔ ضلع کے اہم چوراہوں اور حساس مقامات پر پولیس، پی اے سی کے دستے بھی تعینات کیے گئے ہیں۔ ایڈیشنل ایس پی نے خود جامع مسجد پہنچ کر موقع پر تعینات پولیس اہلکاروں کو مستعد رہنے کی ہدایت کی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔