ہاتھرس معاملہ: کل وہ میرے خواب میں آئی تھی، چارپائی پر بیٹھی چائے پی رہی تھی، متاثرہ کی والدہ کا درد

42 سالہ کرشن دت شرما کہتے ہیں کہ گاؤں پر منحوسیت کا سایا پڑ گیا ہے۔ ساری دنیا میں شادیاں ہو رہی ہیں لیکن ہمارے گاؤں کے چار رشتہ ٹوٹ گئے ہیں۔ گاؤں پر داغ جو لگ گیا ہے۔

تصویر آس محمد
تصویر آس محمد
user

آس محمد کیف

جیسے تھرما میٹر سے پتہ چل جاتا ہے کہ کتنا بخار ہے کاش ہمارے پاس بھی کوئی ایسا آلہ ہوتا جس سے یہ پتہ لگ جاتا کہ بلگڑھی میں ملے اس 50 سالہ شخص کے دماغ میں کیا چل رہا ہے، جس نے پہلے اپنا نام مہیندر بتایا، 15 منٹ کی گفتگو کے دوران اس نے اپنا نام رمیش بتایا اور جب جاتے جاتے اس کا نام پوچھا تو اس نے اپنا نام وجے بتایا۔

ہاتھرس معاملہ: کل وہ میرے خواب میں آئی تھی، چارپائی پر بیٹھی چائے پی رہی تھی، متاثرہ کی والدہ کا درد

خیر وہ جو کہہ کر گیا وہ بات تو ہمارے دماغ میں ابھی بھی گونج رہی ہے۔ یہ اسی انجان شخص نے ہمیں بتایا تھا کہ وہ بھی اسی بلگڑھی گاؤں کا ہے۔ تین بار نام بدلنے والے اس شخص نے ایک بات بالکل صاف کہی کہ نہ تو وہ ٹھاکر ہے اور نہ ہی دلت مگر لڑکی کے ساتھ برا ہوا۔ پورا گاؤں جانتا ہے کہ ’’یہ لڑکا اس لڑکی کے پیچھے پڑا ہوا تھا۔‘‘ 600 افراد کی آبادی والے اس چھوٹے سے گاؤں میں کوئی بات کسی سے چھپتی نہیں ہے۔ وہ لڑکی پڑھائی لکھائی اور شکل و صورت سے اسمارٹ تھی۔ وہ اس پر’قبضہ‘ کرنا چاہتا تھا۔ لڑکی پر اپنا حق سمجھتا تھا۔ ایک بار پنچایت بھی ہوئی تھی، لیکن وہ مان ہی نہیں رہا تھا۔


لڑکی نے مخالفت کی تو اس کی سزا کے طور پر یہ سب کچھ سکھایا گیا۔ تین مرتبہ نام بدلنے والے اس پراسرار شخص نے جو بات آگے بتائی اس نے تو پوری طرح جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ اس نے بتایا ’’وہ انہیں انسان نہیں سمجھ رہے تھے، سمجھتے تو کیا ایسا کرتے۔ اس معاملہ میں انصاف ہونا بہت ضروری ہے اور سی بی آئی کی جانچ ایک دم صحیح ہے۔‘‘یہ حقیقت پورا گاؤں جانتا ہے۔ آج کل ذات پات انصاف کے اوپر ہوگئی ہے۔

ہاتھرس معاملہ: کل وہ میرے خواب میں آئی تھی، چارپائی پر بیٹھی چائے پی رہی تھی، متاثرہ کی والدہ کا درد

علی گڑھ سے آگرہ جاتے وقت چندپا تھانے سے آدھا کلومیٹر دور یہ گاؤں ہے۔ بلگڑھی نام کے اس گاؤں کو داغی تو نہیں کہا جا سکتا لیکن اس گاؤں پر ایسا داغ ضرور لگ گیا ہے کہ جو کبھی مٹ نہیں سکے گا۔ یہ داغ ایک لڑکی کی اجتماعی عصمت دری کے بعد اس کا قتل اور اندھیری رات میں اس کی میت کو اس کے گھر والوں کی عدم موجودگی میں آخری رسومات ادا کر نے سے لگا ہے۔ اس کو حزب اختلاف کی اور عالمی سازش قرار دینے والے اب خاموش بیٹھے ہیں۔ گاؤں کا اب عجیب ماحول ہے، کہیں کوئی چوپال نہیں، کہیں ایک ساتھ چار آدمی نظر نہیں آتے۔ کہیں کوئی حقہ نہیں اور اگر کسی کو یہ پتہ لگ جائے کہ رپورٹر ہے تو ایسے گھور کر دیکھتے ہیں جیسے کھا جائیں گے۔


گاؤں کے 62 سالہ کرشن دت شرما کہتے ہیں کہ گاؤں پر منحوسیت کا سایا پڑگیا ہے۔ ساری دنیا میں شادیاں ہو رہی ہیں لیکن ہمارے گاؤں کے چار رشتہ ٹوٹ گئے ہیں۔ گاؤں پر داغ لگ گیا ہے۔ پتہ نہیں اب یہ گناہ کیسے دھلے گا۔ کرسشن دت سی بی آئی کی اس چارج شیٹ پر کوئی بات نہیں کرتے جس میں لڑکی کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کی بات کہی گئی ہے۔ وہ کہتے ہیں’’ گاؤں کی بہت بدنامی ہوئی ہے، بہت برا ہوا ہے ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا، اس داغ کو دھلنے میں بہت وقت لگے گا۔‘‘

ہاتھرس معاملہ: کل وہ میرے خواب میں آئی تھی، چارپائی پر بیٹھی چائے پی رہی تھی، متاثرہ کی والدہ کا درد

پورا گاؤں چھاونی بنا پڑا ہے۔ گاؤں کے مرکزی داخلہ پر پہلا گھر سندیپ کا ہے۔ دنیا چھوڑ کر جاچکی متاثرہ لڑکی کے گھر کے باہر ریت کی بوریوں کے پیچھے مورچہ سنبھالے کمانڈو کھڑے ہیں۔ جدید بندوقوں کے ساتھ یہاں 125جوان تعینات ہیں۔ آنے والے ہر شخص کا ریکارڈ رکھا جاتا ہے۔ سی بی آئی کے ذریعہ چارج شیٹ داخل کiے جانے کے بعد صحافیوں کا آنا جانا پھر شروع ہوگیا ہے۔


مرحومہ متاثرہ کی والدہ اور والد سے بات کرنے پر کوئی پابندی نہیں ہے لیکن بات چیت کے وقت پولیس آس پاس ہی رہتی ہے۔ پولیس والے صحافیوں سے کہتے ہیں کہ وہ کوئی بھی سوال پوچھ سکتے ہیں وہ تو بس ان کی حفاظت کے لئے یہاں ہیں۔ صحافی کے بھیس میں کوئی اور نہ آ جائے، اس لئے ہمیں تھوڑا ہوشیار رہنا پڑتا ہے۔ متاثرہ کی والدہ کچھ نہیں بولتیں لیکن والد کہتے ہیں ’’اب تو سب کو پتہ ہی لگ گیا ہے کہ کیا سچ ہے۔ ہماری لڑکی تو امر ہو گئی، مگر ہم زندہ مرگئے ہیں۔ غریب اور دلت کی بیٹی کی بھی عزت ہوتی ہے۔ ہماری عزت کو روندا گیا مگر ہمیں یقین ہے کہ ہماری بچی کو انصاف ملے گا اور ان حیوانوں کو پھانسی ہوگی۔‘‘

ہاتھرس معاملہ: کل وہ میرے خواب میں آئی تھی، چارپائی پر بیٹھی چائے پی رہی تھی، متاثرہ کی والدہ کا درد

متاثرہ کا بھائی کہتا ہے کہ اب ہم اس گاؤں میں نہیں رہنا چاہتے۔ اعلی ذات کے لوگوں نے ہم سے بات کرنا بند کر دیا ہے۔ یہاں دلتوں کے زیادہ ترخاندان والوں نے ہم سے فاصلہ بنالیا ہے۔ وہ ہم سے بات کرنے میں جھجھک محسوس کرتے ہیں۔ گاؤں میں والمیکی سماج کے چار گھر ہیں جس میں ایک ہمارا ہے۔ ہم مزدوری کرنے نہیں جا رہے۔ اب ہماری اپنی کوئی زندگی نہیں رہی۔ ہم نے ڈی ایم کو ہٹانے کی مانگ کی تھی لیکن وہ ابھی تک یہیں ہیں۔ ہم سے نوکری اور مکان دونوں کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن کچھ نہیں ملا۔ متاثرہ کی والدہ کہتی ہیں ’’کل وہ (متاثرہ لڑکی) میرے خواب میں آئی تھی اور چارپائی پر بیٹھی ہوئی چائے پی رہی تھی۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 21 Dec 2020, 12:10 PM