محرم میں فرقہ وارانہ خیر سگالی کی مثال بنا ’ساداتِ بارہہ‘، ماتم اور تعزیہ داری کے درمیان ہزاروں آنکھیں نم
مولانا ضیغم نے تقریباً 1400 سال پہلے کربلا میں امام حسین کی شہادت کی منظر کشی کرتے ہوئے حالات حاضرہ کا ایسا بیان کیا کہ سبھی کے رونگٹے کھڑے ہو گئے اور سوگوار بری طرح رونے لگے۔
شیعہ مسلمانوں میں باوقار تصور کیے جانے والے جانسٹھ علاقہ کے ’ساداتِ بارہہ‘ میں آج عاشورہ کے دن اسلام کے آخری پیغمبر حضرت محمد صاحب کے نواسے حضرت امام حسین کی شہادت کے دن ہزاروں آنکھیں نم نظر آئیں۔ شیعہ مسلموں کی بڑی آبادی والے دو درجن سے زیادہ گاؤں چتوڑا، بیہڑا، ککرولی، جٹواڑا، سبھلہیڑا، مجھیڑا، کیتھوڑا، سندھاولی، میراپور وغیرہ میں فرقہ وارانہ خیر سگالی کی مثال بھی دیکھنے کو ملی۔ آج بازاروں میں نکلے تعزیہ داری کے جلوس کے ساتھ یہاں شیعہ سماج کے ساتھ سنّی مسلمانوں نے بھی شرکت کی تو اکثریتی طبقہ نے بھی اچھا تعاون فراہم کیا۔ اس دوران ساداتِ بارہہ کے مرکز جانسٹھ میں سب سے بڑی تعداد میں عقیدت مند جمع ہوئے اور انھوں نے امام حسین کی یاد میں ماتم کیا۔
سید برادرس کے نام سے تاریخ میں مشہور جانسٹھ کے مشہور سید گھرانے میں مجلس کو خطاب کرتے ہوئے مولانا ضیغم وردی نے تقریباً 1400 سال قدیم کربلا میں ہوئے امام حسین کی شہادت کی منظر کشی کرتے ہوئے حالات حاضرہ کا ایسا بیان ادا کیا کہ سبھی کے رونگٹے کھڑے ہو گئے اور سوگوار بری طرح رونے لگے۔ مولانا ضیغم نے فرمایا کہ امام حسین کی شہادت پورے عالم کو یہ پیغام دیتی ہے کہ اگر حکمران ظالم ہو تو، اور حالات کتنے بھی مشکل ہوں تو بھی باطل کے سامنے کبھی نہیں جھکنا چاہیے۔ ایسے حالات میں شہادت کو انتخاب کرنا حضرت امام حسین کے راستے کو چننے جیسا ہے۔ یزید اس وقت کا ظالم حکمران تھا، وہ رسول اللہ کے نواسے امام حسین کو اپنے سامنے جھکانا چاہتا تھا، لیکن حسین نے ساری دنیا کے سامنے حق کی مثال قائم کرنے کے لیے اپنی قربانی دی۔ 1400 سال بعد بھی کربال کی وہ لڑائی آج بھی حق اور باطل کی یاد دلاتی ہے۔ وہ بتاتی ہے کہ حق پر حسین والے ہیں اور باطل یزید والے ہیں۔
مولانا حسینی نے اپنے خطاب میں بتایا کہ محرم کا دسواں دن عاشورہ کا دن ہوتا ہے۔ اسی دن 1400 سال پہلے کربلا کے میدان میں حضرت امام حسین کی شہادت ہوئی تھی۔ اس وقت ان کے ساتھ صرف 72 لوگ تھے، جن میں ایک 6 مہینے کا معصوم بچہ بھی تھا، جبکہ دشمن لاکھوں کی تعداد میں تھے۔ امام حسین کو یزید کے سامنے جھکانے کے لیے ان کے خیموں کا تین دن تک پانی کاٹ دیا گیا تھا، تاکہ وہ پریشان ہو کر یا اہل خانہ کی حالت دیکھ کر یزید کی بیعت کر لیں۔ لیکن امام حسین نے شہادت کو چنا اور جنگ کرنے کا ارادہ کیا۔ لاکھوں کے مقابلے 72 کی یہ لڑائی دنیا کی تاریخ کی سب سے مشہور جنگ ہے۔ اسے کربلا کی جنگ کے طور پر جانا جاتا ہے۔ جنگ کے دوران جب امام حسین نماز کا وقت ہونے پر نماز پڑھنے لگے تو سجدے میں جانے پر دشمن نے ان کا سر کاٹ لیا۔ امام حسین اسلام مذہب کے پیغمبر محمد صاحب کی بیٹی حضرت فاطمہ کے دوسرے بیٹے تھے۔ اس سے پہلے ان کے بڑے بیٹے حضرت حسن کی بھی شہادت ہو چکی تھی۔ حضرت حسین کی شہادت نے انصاف اور انسانیت کی حفاظت کے لیے ایک بہت بڑا پیمانہ قائم کیا۔
شیعہ طبقہ میں خاصی مقبولیت رکھنے والے ان گاؤں میں (جنھیں ساداتِ بارہہ کہا جاتا ہے) آج صبح سے بوندا باندی ہونے لگی تھی۔ دوپہر 2 بجے کے بعد تمام مقامات سے جلوس نکلنے لگے اور اس بار سخت سیکورٹی کے انتظامات دیکھنے کو ملے۔ جانسٹھ کے نواب عباس علی خان نے بتایا کہ جلوس میں سبھی مقامی باشندوں کا تعاون حاصل ہوا۔ خصوصاً اس بار اسکولوں کی چھٹی رد کرنے کو لے کر سماج کے لوگوں میں ناراضگی تھی۔ میراپور کے لالہ موہن سنگل تعزیے کے ساتھ جلوس میں شامل رہے انھوں نے بتایا کہ وہ نسلوں سے ایسا کر رہے ہیں اور امام حسین نے ظالم بادشاہ کے خلاف آواز اٹھا کر مکمل انسانیت کو ایک سمت دینے کا کام کیا۔ ان گاؤں میں خاص کر فرقہ وارانہ خیر سگالی دیکھنے کو ملا جہاں سبھی طبقات کے لوگ ساتھ ساتھ دکھائی دیے۔ تعزیہ کو قبرستان میں لے جا کر سپرد خاک کیا گیا۔ اس دوران کچھ مقامات پر تعزیہ داروں کے اوپر پھولوں کی بارش بھی کی گئی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔