جنگ آزادی میں آر ایس ایس کو اپنے کردار کی تلاش!... موہن گرو سوامی
ریاست حیدرآباد تبدیل ہوگئی اور تبدیلیوں میں جس آر ایس ایس کا کوئی رول نہیں وہ ترنگا بلند کرکے حید رآباد کی آزادی کا سہرا اپنے سر باندھنے کی کوشش میں ہے، ہے نا یہ حیرت ناک بات!
حیرت کی بات ہے کہ وہ آر ایس ایس (راشٹریہ سوم سیوک سنگھ) جس نے اپنے ہیڈکوارٹر ’ہیڈگیوار بھون ناگپور‘ میں ترنگا نہیں لہرایا تھا، اب اسی آر ایس ایس نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ 17 ستمبر کو حیدر آباد میں ترنگا لہرا کر ’یوم آزادی‘ منائے گی۔ جب ہندوستان کو آزادی ملی تو اس موقع پر سنگھ کے انگریزی اخبار ’آرگنائزر‘ نے ترنگے کے بارے میں اعلان کیا ’’وہ لوگ جو قسمت سے اس وقت برسراقتدار آ گئے ہیں وہ ہمارے ہاتھوں میں ترنگا تھما رہے ہیں لیکن اِس کو ہندوؤں نے نہ تو کبھی تسلیم کیا اور نہ وہ اس کا احترام کرتے ہیں۔ لفظ ’تری‘ خود ایک برا لفظ ہے اور اس کا استعمال نفسیاتی طور پر ملک کے لئےمنحوس ثابت ہوگا۔‘‘ یہاں یہ بھی یاد دلانا ضروری ہے کہ ہیڈگیوار بھون ناگپور میں پہلی بار ترنگا 26 جنوری 2001 کو لہرایا گیا تھا۔
یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ آر ایس ایس نے سنہ 1942 میں چلائی جانے والی ’ہندوستان چھوڑو‘ تحریک میں بھی کوئی حصہ نہیں لیا تھا۔ خود کو اس الزام سے بچانے کے لیے کہ 1942 کی تحریک میں اس کی کوئی شرکت نہیں تھی، سنگھ نے 1990 کی دہائی میں یہ پروپیگنڈا شروع کیا کہ باتیشور نام کی جگہ پر اس تحریک میں اٹل بہاری واجپئی شریک ہوئے تھے۔ اس سلسلے میں سنگھ کو محض خفت کا سامنا ہوا کیونکہ ’فرنٹ لائن‘ (انگریزی میگزین) نے اپنے ایک شمارے میں اٹل بہاری واجپئی کا وہ حلفیہ بیان شائع کر دیا جو انھوں نے عدالت کو پیش کیا تھا اور جس میں یہ تسلیم کیا گیا تھا کہ وہ محض ایک تماش بین کے طور پر وہاں کھڑے تھے جہاں ہنگامہ ہو رہا تھا۔
دراصل حیدرآباد، جوناگڑھ اور جموں و کشمیر ریاستوں نے سنہ 1947 میں آزادی کے فوراً بعد ہندوستان میں شمولیت نہیں اختیار کی تھی۔ جموں و کشمیر نے ہندوستان کے ساتھ اپنے الحاق کا اعلان 26 اکتوبر سنہ 1947 میں اس وقت کیا جب پاکستانی حملہ آور سری نگر کے دروازے تک پہنچ چکے تھے۔ نواب آف جوناگڑھ نے تو پاکستان کے ساتھ الحاق کا بھی اعلان کر دیا تھا لیکن وہاں بغاوت پھوٹ پڑی جس کے بعد سنہ 1947 کے معاہدے کو جوناگڑھ پر لاگو کئے جانے کے بعد اس کا الحاق ہندوستان کے ساتھ ہو گیا اور نواب نے پاکستان میں پناہ لی۔ آر ایس ایس نے اس سے قبل کبھی حیدرآباد یا جونا گڑھ کا ہندوستان کے ساتھ الحاق کا کوئی جشن نہیں منایا تھا لیکن اب وہ حیدر آباد کے الحاق کا جشن زور و شور سے منانے جا رہی ہے جس میں اس کا کوئی رول نہیں تھا۔ دراصل اب سنگھ بھی جنگ آزادی میں اپنے لیے جگہ بنانے کی کوشش کر رہی ہے اور اس طرح کے موقع پر وہ خودنمائی بھی کرتی ہے۔
آزادی کے وقت حیدرآباد سب سے بڑی شاہی ریاست تھی اور معیشت کے اعتبار سے بھی دوسری ریاستوں سے آگے تھی۔ اس کا 826.98 اسکوائر کلو میٹر کا رقبہ انگلینڈ اور اسکاٹ لینڈ کے مجموعی رقبے سے بھی زیادہ تھا۔ سنہ 1941 کی مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت حیدر آباد کی کل آبادی 16.34 ملین تھی جس میں 85 فیصد سے زیادہ افراد ہندو اور 12 فیصد مسلمان تھے۔ یہاں مختلف زبانوں میں گفت و شنید کرنے والے افراد رہتے تھے جن میں تلگو بولنے والے 48.2 فیصد تھے، مراٹھی 26.4 فیصد افراد بولتے تھے، کنڑ بولنے والے 12.3 فیصد تھے اور اردو بولنے والوں کی تعدادبھی 12.3 فیصد تھی۔ ریاست حیدرآباد پر مسلمانوں کا غلبہ تھا اور ہندو اکثریت کی حکومت میں شراکت داری قدرے کم تھی۔ یہ اسی طرح کی بات ہے جیسے کہ مسلم اکثریتی ریاست جموں و کشمیر میں کثرت والی مسلم آبادی کو سرکار میں بہت کم مواقع حاصل تھے۔
ایسا نہیں تھا کہ ریاست حیدرآباد میں ہندوؤں کی کوئی جگہ ہی نہیں تھی، دراصل یہاں ہندو شرفاء کا اپنا ایک الگ گروہ تھا۔ ان میں سے کئی افراد ریاست کے وزیر اعظم کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ مثلاً مہاراجہ چندو مل سنہ 1833-44 کے درمیان سکندر جاہ کے شاہی دور میں وزیر اعظم رہے۔ سر کشن پرساد سنہ 1902-12 تک وزیر اعظم رہے۔ مگر حیدر آباد ریاست مسلمانوں کی ریاست تھی اور مسلمانوں کے حق میں کارگر تھی۔ سنہ 1911 کے اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ اس وقت 70 فیصد پولس، 55 فیصد فوج اور 26 فیصد سرکاری نوکریاں مسلمانوں کے پاس تھیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق سنہ 1941 میں سول سروسز کے کل 1765 افسران میں 1286 افسران مسلمان تھے جب کہ 421 ہندو، بقیہ دیگر مذاہب کے افراد تھے۔ ایسے افسران جن کی تنخواہ اس وقت 600 سے 1200 روپے فی ماہ تھی ان میں 59 فیصد مسلمان اور 38 فیصد دیگران تھے، جن میں محض پانچ ہندو تھے۔ نظام اور ان کے نوابین جو مسلمان ہوتے تھے، وہ ریاست کی 40 فیصد زمین کے مالک تھے۔
لیکن آج بھی حیدرآباد میں بی جے پی کا اثر محض پرانے شہر تک ہی محدود ہے اور یہ علاقہ مجلس اتحاد المسلمین کا گڑھ ہے، جو بی جے پی کی کٹر دشمن ہیں۔ اس کا اصل اثر و رسوخ کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بی جے پی چار مینار کے ایک کونے میں ایک مندر بنانے میں کامیاب ہو گئی ہے جو آنکھوں کو بھلا محسوس نہیں ہوتا ہے۔
حیدر آباد میں پہلی سیاسی اتھل پتھل سنہ 1927 میں آصف جاہ کے دور میں ہوئی جب مجلس اتحاد المسلمین کا قیام اس غرض سے ہوا کہ ’’مختلف مسلم فرقوں کے مسائل کا حل اسلامی اصولوں کے تحت تلاش کیا جائے۔‘‘ غالباً یہ سنہ 1920 کی خلافت تحریک کا اثر تھا جس کے بعد مسلمان بڑی تعداد میں کانگریس سے بھی منسلک ہو گئے تھے۔ لیکن مجلس اتحادالمسلمین جلد ہی ایک کٹر مسلم تحریک بن گئی جس کا مقصد ریاست حیدرآباد کو ایک اسلامی ریاست میں تبدیل کرنا تھا۔
پھر سنہ 1933 میں ایک اور تنظیم کی بنیاد پڑی جس کا نام نظام رعایا لیگ تھا جس کو ’ملکی‘ لقب دیا گیا۔ اس میں زیادہ تر حیدرآباد کے وہ ہندو اور مسلم باشندے شامل تھے جن کا تعلق حیدرآباد نژاد اتر پردیش کے مسلمانوں اور کایستھوں سے نہیں تھا۔ جلد ہی اس کا نام ’ملکی لیگ‘ پڑ گیا۔ یہ ’ملکی لیگ‘ ہی تھی جس نے ایک ’ذمہ دار‘ حکومت کا نیا تصور پیش کیا تھا ۔سنہ 1937 میں ملکی لیگ دو حصوں میں بٹ گئی۔ ان میں سے ایک حصہ ہندو انتہا پسندوں کا تھا جس نے اسی سال حیدرآباد عوامی کنونشن کا انعقاد کیا تھا جس نے جلد ہی حیدرآباد کانگریس کا روپ اختیار کر لیا۔ اس تحریک نے حیدرآباد میں آئینی حقوق تحریک کی بنیاد رکھ دی۔ آر ایس ایس کا کہیں حیدر آباد میں کوئی نام و نشان تک نہیں تھا۔ بس کچھ افراد تھے جو خود کو مہاسبھائی کہتے تھے اور وہ زیادہ تر مراٹھواڑا علاقے میں محدود تھے۔
حیدر آباد کانگریس نے جب احتجاج کی سیاست شروع کی تو اسی کے ساتھ آریہ سماج اور وی ڈی ساورکر کی ہندو مہاسبھا نے ہندو سول رائٹس تحریک شروع کر دی۔ اس وقت کافی حد تک کانگریس اور دوسری ہندو تنظیموں کے مفاد ایک ہی طرح کے تھے۔ اس طرح ان تنظیموں کا سیدھا ٹکراؤ مجلس کے ساتھ ہوا جس کی قیادت اس وقت بہادر یار جنگ کر رہے تھے جو انجمن تبلیغ اسلام کے بھی بانی تھے اور اس تنظیم کا مقصد ہندوؤں کو مسلمان بنانا تھا۔
بہادر یار جنگ ایک کرشمائی شخصیت کے حامل تھے اور نظام عثمان علی خان کے خاصے نزدیک تھے۔ بہادر یار جنگ اپنے مقاصد کو کھلے لفظوں میں یوں بیان کرتے تھے ’’مجلس کی پالیسی یہ ہے کہ حیدر آباد میں نظام شاہی برقرار رہے اور حیدر آباد ریاست میں مسلمانوں کی ہندوؤں پر سبقت قائم رہے۔‘‘
اس کے برخلاف کانگریس کا لب و لہجہ قومی تھا۔ خصوصاً جب سوامی رامانند تیرتھ کا حیدرآباد منظرنامے پر عروج ہوا تب سے کانگریس کا لب و لہجہ بدلنے لگا۔ تیرتھ گلبرگہ کے رہنے والے تھے اور اپنی جوانی میں ہی سادھو ہو گئے تھے۔ وہ سنہ 1946 میں حیدرآباد کانگریس کے صدر منتخب ہوئے۔ ان کے ارد گرد بہت سے ایسے نوجوان اکٹھا ہو گئے جو آزادی کے بعد اہم حیثیت اور عہدوں پر فائز رہے۔ ان میں سے سب سے اہم شخصیت نرسہما راؤ کی تھی جو بعد میں وزیر اعظم بنے۔ راؤ کے علاوہ شنکر راؤ چوہان، ویریندر پاٹل اور ماری چیناریڈی بھی تیرتھ کے شاگردوں میں تھے جو آگے چل کر وزرائے اعلیٰ رہے۔
ایک طرف کانگریس ریاست میں زور پکڑ رہی تھی تو دوسری جانب تلگو بولے جانے والے علاقے میں کمیونسٹوں کا بھی زور بڑھ رہا تھا۔ کمیونسٹوں نے آندھرا مہا سبھا پر اپنا قبضہ جما لیا تھا جس کا قیام سنہ 1921 میں ہوا تھا۔ حیدر آباد کانگریس کے بالمقابل کمیونسٹ نظام حامی تھے اور بھارت چھوڑو تحریک کے وقت کمیونسٹوں نے نظام اور مجلس کے ساتھ مل کر 1942 میں نظام کی باقاعدہ حمایت کی تھی جو اس وقت تک انگریزوں کے حلیف تھے۔
ریاست حیدر آباد کا ہندوستان کے ساتھ الحاق کے بعد ریاست میں بڑی تیزی سے تبدیلیاں آئیں جس نے ریاست کی سیاست کا کایا پلٹ کر دیا۔ مسلم اشراف ریاست میں الگ تھلگ پڑ گئے۔ علی یاور جنگ جیسوں نے کانگریس کا دامن تھام لیا۔ آزادی کے بعد ریاست میں سرکاری افسروں کا ایک نیا طبقہ پیدا ہو گیا اور اس نے کمیونسٹ تحریک کے دوران ہی ریاست کے نظام اور معاشرے پر اپنی گرفت مضبوط کر لی۔ مسلم زمیندارانہ نظام کی جگہ ایک جمہوری نظام نے اپنی جگہ بنا لی۔
ریاست حیدر آباد تیزی سے بدل گئی۔ مگر ان تمام تبدیلیوں میں آر ایس ایس کا کہیں کوئی رول نہیں تھا۔ آج وہی آر ایس ایس حیدر آباد میں ترنگا بلند کر کے حیدرآباد کی آزادی کا سہرا اپنے سر باندھنے کی کوشش میں ہے، ہے نا یہ حیرت ناک بات!
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 13 Sep 2020, 9:21 AM