رام مندر تعمیر، ایک تیر دو شکار
اس وقت اتر پردیش میں اور مر کز دونوں جگہ پر بی جے پی حکومت ہے۔ اتر پردیش میں یو گی آدتیہ ناتھ اور مرکز میں نریندر مودی جیسے ہندوتوا کے پجاریوں کے ہاتھوں میں اقتدار ہے۔
موہن بھاگوت نے اعلان کر دیا ۔ ایودھیا میں بابری مسجد کی جگہ پر صرف اور صرف رام مندر ہی بنے گا۔ بھاگوت نے یہ اعلان بنگلور کے پاس وشو ہندو پریشد کے ایک جلسے میں کیا۔ جہاں دھرم سنسد میں شرکت کر نے کے لئے ہندوستان بھر سے سادھو سنت اکٹھا ہوئے ہیں ۔ بھاگوت کا اعلان ہے کہ ’’جہاں تک رام جنم بھومی کا تعلق ہے تو وہاں صرف رام مند ر ہی بنے گا اور کسی شئی کی تعمیر وہاں نہیں ہو سکتی ہے۔۔۔مندر کی تعمیر وہی لوگ کریں گے جو 20-25سال سے اس کی تعمیر کی جدو جہد کر رہے ہیں ۔‘‘
موہن بھاگوت کے اس اعلان کے بعد اب یہ طے ہو گیا ہے کہ سنگھ نے ایودھیا میں (بابری مسجد انہدام کے 25 برس ہو چکے ہیں) ایک شاندار رام مند ر تعمیر کا پختہ ارادہ کر لیا ہے۔ صرف ارادہ نہیں بلکہ تعمیر کا پلان بھی تیار ہو چکا ہے ۔ سنگھ اور بی جے پی کی نگاہیں سن 2019 کے لوک سبھا چناؤ پر لگی ہو ئی ہیں ۔ نریند مودی کی ذاتی چمک پھیکی پڑ تی جا رہی ہے ۔ ملک کی گر تی معیشت نے مودی کا ’ڈیو لپمنٹ‘ کا رڈ بھی بے اثر کر دیا ہے ۔ ان حالات میں سن 2019 کا لوک سبھا کاالیکشن ’رام بھروسے‘ ہی لڑا جا سکتا ہے۔ اسی لئے سنگھ نے ایودھیا میں رام مندر بنانے کا پورا ارادہ کر لیا ہے۔
موہن بھاگوت نے اپنی تقریر میں رام مند تعمیر کے لئے 20-2019 کا اشارہ کیا ہے ۔ جبکہ بیجا در مٹھ وشیش تیرتھ کے سوامی جی کا اعلان ہے کہ’’ اس وقت مندر تعمیر کے لئے سازگار ماحول ہے۔ اس لئے یہ کام 2019 تک ہو جائے گا ۔ میں یہ بھروسہ اس لئے دے رہا ہوں کیونکہ فی الحال اس کے لئے فضا ساز گار ہے‘‘۔
اس میں کو ئی شک نہیں کہ اس وقت رام مندر تعمیر کے لئے جس قدر ماحول سازگار ہے ویسا ماحول پہلے کبھی نہیں تھا ۔ اس وقت اتر پردیش میں اور مر کز دونوں جگہ پر بی جے پی حکومت ہے۔ اتر پردیش میں یو گی آدتیہ ناتھ اور مرکز میں نریندر مودی جیسے ہندوتوا کے پجاریوں کے ہاتھوں میں اقتدار ہے۔ آج سے تقریباً 25 برس قبل 6 دسمبر 1992کو جب بابری مسجد گرائی گئی تھی تو اس وقت صرف اتر پردیش میں بی جے پی کی سرکار تھی اور مرکز میں نرسمہا راؤ کی سرکار خاموش تماشائی تھی ۔ اس لئے اس وقت مسجد کو گرانے کا کام تو ہو گیا تھا لیکن مندر کی تعمیر کا کام نہیں ہو سکا۔مندر تعمیر کے لئے مر کز کا بھی تعاون درکار ہو گا ۔ مودی سرکار اس سلسلے میں ہرقسم کا تعاون فراہم کرنے میں کو ئی بھی گریز نہیں کرے گی۔
اس لئے اب سپریم کو رٹ اگلے ہفتے ایو دھیا معاملے میں سنوائی شروع کر نے کے بعدخواہ کو ئی بھی فیصلہ کرے، سنگھ کا رام مندر کا ’ٹائم ٹیبل‘ نہ صرف تیار ہے بلکہ اس پر تیزی سے عمل بھی شروع ہو چکا ہے۔ یو گی ادتیہ ناتھ جیسے کٹر ہندو تووادی کو اتر پردیش کا وزیر اعلی بنانے کا مقصد یہی تھا۔ مند ر کی تعمیر کا کام سن 2018 کے آخر ی حصے میں شروع ہو سکتا ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ سنگھ اور بی جے پی شدت سے بھگوان رام کے نام پر ہندو جذبات بھڑکانے میں سر گرم ہو جائیں گے۔ سن 2019 کا لوک سبھا چناؤ آتے آتے یا تو مندر کی تعمیر ہو جائے گی یا پھر بچے ہوئے کام کے نام پر سنگھ اور بی جے پی ہندو ووٹ بٹور کر رام مند ر کی تعمیر کی آڑ میں پھر سے اقتدار پر قابض ہو نے کی کوشش کرے گی۔ اسی طرح ایک تیر سے دو شکار ہو جائیں گیں۔ مندر کی تعمیر بھی ہو جائے گی اور بی جے پی رام کے نام پر ہندو ووٹ بینک کی سیاست کر پھر اقتدار بھی حاصل کر نے میں کا میاب ہو سکتی ہے۔
اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ contact@qaumiawaz.com کا استعمال کریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔