سنگھ بچوں کے ذریعہ کیسے اپنے پاؤں جما رہا ہے— ویڈیو

تصویر قومی آواز
تصویر قومی آواز
user

وشو دیپک

متھرا: کیشو دھام، ورنداون میں آر ایس ایس ہیڈ کوارٹر (شمال مشرق) میں 52 بچوں کے لیے ایک ہوسٹل بھی ہے۔ یہ بچے سنگھ کے سرسوتی مندر سینئر سیکنڈری اسکول میں پڑھتے ہیں جہاں ان کو انگلش میڈیم میں تعلیم دی جاتی ہے۔ حالانکہ یہ بچے ڈھنگ سے ہندی بھی نہیں بول پاتے ہیں، لیکن سنگھ ان کو زور شور سے سنسکرت پڑھا اور سکھا رہا ہے۔

’قومی آواز‘ نمائندہ وشو دیپک نے ان بچوں سے بات چیت کی جو کیشو دھام میں سنگھ کا پرچم نصب کرنے میں مصروف تھے۔ پیش ہے شمال مشرق کے ان بچوں سے گفتگو کے چند اقتباسات جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ اس علاقہ میں کیسے بچوں کو بیج کی طرح استعمال کر سنگھ اپنی جڑیں مضبوط کر رہا ہے۔

انگلوبے جو آسام کا رہنے والا ہے، وہ قومی آواز سے بولا ’’ہم یہاں سہی معنوں میں ہندوستان کے اچھے شہری بننے آئے ہیں اور ہم یہاں سنسکرت بھی سیکھ رہے ہیں۔‘‘

کرن جس کی عمر 12 سال ہے اور جو میگھالیہ کا باشندہ ہے کہتا ہے ’’یہاں رہ کر ہم ہندو بن رہے ہیں۔‘‘

جیوتش جو تریپورہ کا باشندہ ہے وہ کہتا ہے ’’وہاں (تریپورہ) میں تعلیم حاصل کرنے کا کوئی انتظام نہیں تھا۔ یہاں ہم مفت میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ یہاں ہم مفت میں پڑھ رہے ہیں اور یہاں رہنے اور کھانے کا بھی مفت میں انتظام ہے۔‘‘

اب آپ کی سمجھ میں آیا کہ آر ایس ایس کیسے غریب اور کم عمر بچوں کے ذریعہ شمال مشرق میں اپنے پاؤں جما رہا ہے۔ یہاں یہ غور طلب ہے کہ شمال مشرق کا کلچر ہندی اور سنسکرت کلچر سے کتنا مختلف ہے۔ پھر بھی سنگھ کم عمر بچوں کے ذریعہ شمال مشرق میں کیسے سنسکرت اور اس سے جڑا کلچر ایکسپورٹ کر رہا ہے۔

اس سلسلے میں یہ عرض کرنا بے جا نہ ہوگا کہ سپریم کورٹ نے یکم ستمبر 2010 کو ’یتیم خانوں میں بچوں کا استحصال بنام حکومت تمل ناڈو‘ معاملے کے سلسلے میں اپنے فیصلے میں یہ کہا تھا کہ ’’منی پور اور آسام ریاستوں کو یہ حکم دیا جاتا ہے کہ 12 سال سے کم عمر والے بچے اور ایسے بچے جو پرائمری سطح کی تعلیم حاصل کر رہے ہوں ان کو تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے ریاست سے باہر نہیں جانے دیا جائے۔‘‘

پتہ نہیں کہ کیشو دھام ،متھرا میں رہنے والے شمال مشرق کے بچوں کا معاملہ سپریم کورٹ کی حکم عدولی کا معاملہ ہے یا نہیں! یہ تو سپریم کورٹ ہی طے کرے گا۔ لیکن سنگھ اپنے کو خود سپریم سمجھتا ہے تو پھر اس کو کسی عدالت کا کیا خوف!

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔