بابری مسجد تنازع کے حل کے لئے  گول میز کانفرنس

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

یو این آئی

نئی دہلی: اجودھیا میں بابری مسجد رام جنم بھومی تنازع کاخوشگوار حل تلاش کرنے کے لئے دو اکتوبر کو بابائے قوم مہاتماگاندھی کی سالگرہ کے موقع پر پونے کی ایم آئی ٹی ورلڈ پیس یونیورسٹی کی طرف سے ایک قومی گول میز کانفرنس منعقد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

یونیورسٹی کے وائس چانسلر وشوناتھ ڈی کراڈ نے ایک پریس کانفرنس میں اطلا ع دیتے ہوئے بتایا کہ چھ دسمبر 1992 کے بعد سے سیاست کا شکار ہوجانے والے بابری مسجد رام جنم بھومی تنازع کا حل سیاست سے ہٹ کر بین مذہبی مکالمہ کے ذریعہ خوشگوار طور پر حل کرنے کی کوشش کرنی ہوگی کیوں کہ یہ مسئلہ سیاست سے حل ہونے والا نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان کی یونیورسٹی نے اس سمت میں پیش قدمی کرتے ہوئے ایک ایسی تجویز تیار کی ہے جو ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں کے لئے قابل قبول ہوسکتا ہے۔ اس تجویز پر گفتگو کے لئے دو اکتوبر کو گول میز کانفرنس طلب کی گئی ہے۔ کانفرنس میں دس یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر، معروف سائنس داں، مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن ، سماجی کارکن، ماہرین تعلیم، مفکرین اور مسلم اور ہندو تنظیموں کے کئی نمائندے حصہ لیں گے اور تجویز پر اپنی رائے دیں گے اور اپنا نظریہ پیش کریں گے۔

مسٹر کراڈ کا کہنا ہے کہ یہ ایک انتہائی حساس اور پیچیدہ موضوع ہے جو 2010کے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے مطابق تین فریقین کے درمیان 2.77ایکڑ متنازع زمین کی ملکیت تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اس زمین کے اردگرد حکومت کے ذریعہ ایکوائر 67ایکڑ زمین سے بھی جڑا ہوا ہے جو پوری طرح خالی اور بیکار پڑی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان کی یونیورسٹی کی طرف سے تیار کردہ تجویز کے تحت اجودھیا میں متنازع اراضی کے پاس اسی 67ایکڑ زمین پر وشو دھرمی رام مانوتا بھون بنانے کی بات رکھی گئی ہے ۔ یہ ایک ایسی جگہ ہوگی جہاں ہندو ، مسلمان، عیسائی، بودھ ، سکھ ، پارسی، یہودی تمام مذاہب کے عبادت خانے بنائے جائیں گے ۔اس پر تقریباً دو سے ڈھائی کروڑ روپے خرچ ہونے کا امکان ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ فریق نہیں ہونے کے باوجود ان کی یونیورسٹی کی طرف سے اس پر ایک عرضی داخل کی گئی ہے جسے عدالت نے تسلیم کرلیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تجویز کے سلسلے میں وزیر اعظم نریندر مودی سمیت تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور ممبران پارلیمنٹ کو بھی خط لکھ کر رائے طلب کی گئی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔