سوالوں کے گھیرے میں سہارنپور کا شہزاد انکاؤنٹر

سوال یہ ہے کہ آخر شہزاد کے بدن پر جو چوٹیں موجود تھیں وہ کس طرح سے لگیں۔ محلہ والے اور اہل خانہ آخر کیوں کہہ رہے ہیں کہ شہزاد کی لاش پر گولی کا کوئی نشان موجود نہیں تھا!

تصویر قومی آواز / آس محمد
تصویر قومی آواز / آس محمد
user

آس محمد کیف

سماجی تنظیم ’رہائی منچ‘ نے 25 مئی کو سہارنپور کے گاگل ہیڑی میں ہوئے شہزاد انکاؤنٹر پر سوال کھڑے کیے ہیں۔ شہزاد کے اہل خانہ انکاؤنٹر کو پہلے ہی فرضی قرار دے چکے ہیں اور مہلوک کا کوئی مجرمانہ ریکاڈ بھی نہیں ہے۔ گاگل ہیڑی پولس کے مطابق شہزاد نے ایک کسان دیویندر تیاگی کو اغوا کرکے تاوان طلب کیا تھا۔

کسان کے بھائی نے ’ڈائل 100‘ پر فون کر کے پولس کو اطلاع دی جس کے بعد مڈبھیڑ شروع ہو گئی۔ ہلاک شدہ شہزاد کھتولی کا رہائشی تھا۔ گاگل ہیڑی کے تھانہ انچارچ آدیش تیاگی نے بتایا کہ شہزاد جرائم پیشہ خانہ بدوش طبقہ چھیمار کے ساتھ مل کر جرائم کو انجام دے رہا تھا۔


’رہائی منچ‘ کی ٹیم نے اس انکاؤنٹر پر ایک ہفتہ فیکٹ فائنڈگ کے بعد رپورٹ پیش کی ہے اور پولس کی پوری کہانی کو فرضی قرار دیا ہے۔ رہائی منچ کے رکن محمد شعیب کے مطابق ان کی ٹیم مہلوک کے اہل خانہ سے پوچھ گچھ اور گاگل ہیڑی میں چھان بین کے بعد انکاؤنٹر سے متعلق کئی اہم انکشافات ہوئے ہیں۔

انہوں نے بتایا، شہزاد انکاؤنٹر کی ایک تصویر میں ایک شخص زمین پر گرا ہوا ہے اور اس کے نزدیک ایک ہتھیار پڑا ہے جس پر شہزاد کا ہاتھ رکھا ہوا ہے۔ ایک نظر اس ہتھیار اور منظر پر نظر ڈالیں تو شبہ پیدا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ مہلوک کے دائیں پیر میں ایک چپل ہے جبکہ بائیں پیر کے نزدیک ایک کالے رنگ کا جوتا پڑا ہوا ہے۔


رہائی منچ نے سوال اٹھایا ہے کہ اسپتال میں لی گئی تصویر میں کمر میں کارتوس کی بیلٹ بندھی ہوئی ہے اور شرٹ اوپر چڑھی ہوئی ہے۔ اس سے شبہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص کارتوس کی بیلٹ پہن کر واردات کو انجام دینے جائے گا تو وہ شارٹ شرٹ کیوں پہنے گا، اس سے تو کمر پر بندھی کارتوس کی بیلٹ ہر کسی کو نظر آنے لگے گی!

سوالوں کے گھیرے میں سہارنپور کا شہزاد انکاؤنٹر

رہائی منچ نے یہ بھی پوچھا ہے کہ شناخت کے لئے سہارنپور کے گاگل ہیڑی کے تھانہ انچارج آدیش کمار تیاگی نے گشتی تلاش جاری کی، جس کی جامہ تلاشی سے ایک فوٹو کاپی راشن کارڈ جس میں زرینہ اہلیہ شہزاد رہائشی سردھنہ میرٹھ درج ہے، ساتھ ہی ایک پرچی پر موبائل نمبر 9058675..6 درج ہے۔‘ آخر کوئی شخص وہ بھی ایک جرائم پیشہ کیوں کر موبائل نمبر کی پرچی لے کر گھومتا پھرے گا۔

رہائی منچ نے دعوی کیا ہے کہ شہزاد کے اہل خانہ کو جب صبح 11-12 بجے کے درمیان اطلاع دی جا چکی تھی تو شام 5 بجکر 10 منٹ پر پوسٹ مارٹم میں مہلوک کو نامعلوم کیوں ظاہر کیا گیا؟ جبکہ 26 مئی کو 11.10 بجے آئی خبر میں سہارنپور پولس مہلوک کی شناخت بتا چکی تھی۔


اس کے علاوہ گاڑی کی برآمدگی اور شہزاد کی بہن کے آنے والے فون سے بھی اس انکاؤنٹر پر سوال کھڑے ہوتے ہیں۔ رہائی منچ کے مطابق شہزاد کے محلہ والوں کا کہنا ہے کہاس کو گولی سے نہیں پیٹ پیٹ کر قتل کیا گیا ہے۔ جب لاش کو آخری غسل دیا گیا تو اس کے متعدد اعضا پر چوٹ کے نشانات پائے گئے۔ اس کے دانت ٹوٹے ہوئے تھے، بائیں ٹانگ ٹوٹی تھی، پسلیوں پر بھی چوٹ کے نشان تھے لیکن گولی کا کوئی نشان موجود نہیں تھا۔

اتنا ہی نہیں شہزاد کے اہل خانہ کو پوسٹ مارٹم رپورٹ بھی نہیں سونپی گئی۔ شاید اس کا پہلے ہی قتل ہو چکا تھا اور اس کے بعد انکاؤنٹر ظاہر کیا گیا۔ یہی شہزاد کے بھائی نوشاد والد علاؤالدین کا بھی کہنا ہے۔ رہائی منچ کے مطابق پوسٹ مارٹم رپورٹ میں چار زخم گولی سے آئے ہیں۔ پہلی گولی سر کے اندر گئی، دوسری گولی سر سے باہر نکل گئی، تیسری گولی سینے کے اندر گئی اور چوتھی گولی پیٹھ سے باہر نکل گئی۔ سوال یہ ہے کہ آخر شہزاد کے بدن پر جو چوٹیں موجود ہیں وہ کس طرح سے لگیں۔ محلہ والے اور اہل خانہ آخر کیوں کہہ رہے ہیں کہ شہزاد کی لاش پر گولی کا کوئی نشان موجود نہیں تھا!


پولس انکاؤنٹر کے بعد رہائی منچ کی ایک ٹیم نے، جس میں انجینئر عثمان، روش عالم، آشو چودھری، امیر احمد، عرش تیاگی اور ساجد شامل تھے، شہزاد کے اہل خانہ سے ملاقات کی۔ منچ سے اہل خانہ نے گاگل ہیڑی میں پولس کی طرف سے 38 سالہ شہزاد کو انکاؤنٹر میں قتل کرنے کے واقعہ کو فرضی قرار دیا اور معاملہ کی تفتیش کا مطابلہ کیا ہے۔ شہزاد ریہڑا چلاتا تھا اور غبارے بیچنے کا بھی کام کیا کرتا تھا۔ شہزاد کے پانچ چھوٹے چھوٹے بچے ہیں اور ان کا واحد سہارا شہزاد ہی تھا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔