دھان کی کاشت میں انقلابی تبدیلی، باسمتی کی برآمد کے امکانات بڑھے
یہ دھان براہ راست بویا جاتا ہے، اس لیے اس کی نرسری نہیں لگائی جاتی اور نہ ہی اس کی پیوند کاری ہوتی ہے، جس سے مزدوری کی لاگت کی بچت ہوتی ہے۔
ہندوستانی زرعی سائنسدانوں نے باسمتی دھان کی کاشت میں انقلابی تبدیلیاں لا کر نہ صرف اس کی لاگت کو کم کیا ہے بلکہ اسے براہ راست بویا جاتا ہے اور اس میں بیماریوں کے خلاف مزاحمت کی خصوصیات بھی ہیں۔
انڈین ایگریکلچرل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، نئی دہلی نے باسمتی چاول کی یہ نئی قسم تیار کی ہے۔ اس کی کاشت براہ راست بوائی سے کی جاتی ہے جس کی وجہ سے مزدوری اور پانی کی بہت بچت ہوتی ہے۔ اس سے دنیا کو باسمتی چاول کی برآمد میں اضافے کا بھی امکان ہے۔
انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر اور معروف زرعی سائنسدان اشوک کمار سنگھ نے بتایا کہ پوسا 1509 باسمتی کی قسم تیار کر کے پوسا باسمتی 1985 قسم کو براہ راست بوائی کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ اس میں اینٹی اسکورچنگ اور اینٹی ویڈنگ خصوصیات بھی ہیں۔
ڈاکٹر سنگھ نے کہا کہ پنجاب، ہریانہ، مغربی اتر پردیش، ہماچل پردیش، جموں کشمیر اور دہلی میں باسمتی دھان کی کاشت کے لیے جن علاقوں کی نشاندہی کی گئی ہے وہاں 1985 کی اقسام کاشت کی جا سکتی ہیں۔ کسان اس کی کاشت میں 4000 روپے فی ایکڑ بچاتے ہیں۔ اس کے ساتھ پانی کی 35 فیصد بچت ہوتی ہے اور گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں بھی 35 فیصد کمی ہوتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ باسمتی کی اس نئی قسم کی پیداوار 65 کوئنٹل فی ہیکٹر تک لی جا سکتی ہے۔ قابل ذکر ہے کہ ایک کلو دھان کی پیداوار کے لیے 3000 لیٹر پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ دھان براہ راست بویا جاتا ہے، اس لیے اس کی نرسری نہیں لگائی جاتی اور نہ ہی اس کی پیوند کاری ہوتی ہے، جس سے مزدوری کی لاگت کی بچت ہوتی ہے۔
ڈاکٹر سنگھ نے بتایا کہ براہ راست بوائی کی وجہ سے اس کی کاشت میں جڑی بوٹیوں کا زیادہ مسئلہ ہے۔ یہ مسئلہ جڑی بوٹیوں کے خلاف ادویات کے چھڑکاؤ سے حل کیا جاتا ہے۔ اس سپرے سے دھان پر کوئی منفی اثر نہیں ہوتا۔ انہوں نے بتایا کہ اس دھان کی وافر پیداوار حاصل کرنے کے لیے فی ایکڑ تین تھیلے یوریا، ایک تھیلی ڈی اے پی اور تیس کلو پوٹاش کی ضرورت ہوتی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔