جھانسی کے میڈیکل کالج میں آگ لگنے کا سانحہ، دو بڑی لاپرواہیوں کا انکشاف

جھانسی کے میڈیکل کالج کے ’این آئی سی یو‘ میں آگ لگنے سے 10 بچوں کی موت اور 16 کے شدید زخمی ہونے سے کئی سوالات جنم لے رہے ہیں۔ آگ کے دوران فائر ایکسٹینگوشر کی تاریخ گذر چکی تھی، فائر الارم بھی نہیں بجا

<div class="paragraphs"><p>آئی اے این ایس</p></div>

آئی اے این ایس

user

قومی آواز بیورو

لکھنؤ: اتر پردیش کے جھانسی میں میڈیکل کالج کے این آئی سی یو وارڈ میں لگنے والی آگ نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اس سانحے میں 10 بچوں کی جان چلی گئی جبکہ 16 دیگر بچے شدید جھلس کر زندگی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ واضح رہے کہ این آئی سی یو (نیونیٹل انسٹینسیو کئیر یونٹ) یعنی نوزائیدہ بچوں کا انتہائی نگہداشت وارڈ، اسپتال کا خصوصی شعبہ ہوتا ہے جہاں بیمار یا وقت سے پہلے پیدا ہونے والے نوزائیدہ بچوں کا علاج اور دیکھ بھال کی جاتی ہے۔ یہ جدید مشینوں اور ماہر ڈاکٹروں کی نگرانی میں کام کرتا ہے۔

ان بچوں کی موت کے بعد پورے علاقے میں غم کا ماحول ہے اور سوالات اٹھ رہے ہیں کہ یہ سانحہ کیسے ہوا اور اس کا ذمہ دار کون ہے؟ آگ کیسے لگی اور کیوں بروقت اس کا پتہ نہیں چل سکا؟ اس کے ساتھ ہی یہ بھی سوال اٹھ رہا ہے کہ اسپتال میں لامپرواہی کا کس حد تک دخل تھا؟


جھانسی میڈیکل کالج میں آگ لگنے کے بعد سامنے آئی ایک رپورٹ کے مطابق، وارڈ میں رکھے گئے فائر ایکسٹینگوشر کی تاریخِ ختم ہو چکی تھی۔ ایکسٹینگوشر پر 2019 کی فلنگ تاریخ درج تھی اور اس کی ایکسپائری 2020 میں ہو چکی تھی۔ اس کے علاوہ، فائر الارم بھی بجا نہیں تھا، جس سے سوالات مزید بڑھ گئے ہیں۔ انکشاف ہوا ہے کہ یہ سلنڈرز صرف دکھاوے کے طور پر رکھے گئے تھے۔

اس کے علاوہ، اس سال فروری میں اسپتال میں آگ کی حفاظت کے لیے آڈٹ بھی کیا گیا تھا اور جون میں ماک ڈرل بھی ہوئی تھی، مگر ان میں کوئی واضح کمی نہیں دیکھی گئی تھی۔ نائب وزیر اعلیٰ بر جیش پاتھ نے کہا ہے کہ آگ کے بعد کی تحقیقات میں لامپرواہی کی باتوں کی تصدیق ہونا ابھی باقی ہے۔

عینی شاہد ہمیرپور کے رہائشی بھگوان داس نے بتایا کہ جب آگ لگی، وہ خود وارڈ میں موجود تھے۔ ان کے مطابق، نرس نے آکسیجن سلنڈر کے پائپ کو جوڑنے کے لیے ماچس کی تیلی جلائی تھی، جس سے پورے وارڈ میں آگ لگ گئی۔ بھگوان داس نے خود چند بچوں کو بچانے کی کوشش کی اور ان کے جسم پر کپڑے لپیٹ کر انہیں بچایا۔

اس حادثے کی تحقیقات جاری ہیں اور اسپتال کی لاپرواہیوں کا پتہ لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے تاکہ آئندہ اس طرح کے سانحے سے بچا جا سکے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔