نتائج عام آدمی پارٹی اور بی جے پی کے لئے بڑا چیلنج

دہلی کے مسلم اکثریتی علاقوں میں جس انداز سے مسلمانوں نے کانگریس کی جانب رخ کیا ہے وہ اپنے آپ میں اشارہ ہے کہ کیجریوال کو سمجھنے اور ان کی غلطیوں کو نظر انداز کرنے کی غلطی اب دہلی کے لوگ نہیں کر سکتے۔

تصویر یو این آئی
تصویر یو این آئی
user

قومی آواز بیورو

گجرات میں بی جے پی کی آندھی، ہماچل میں کانگریس کی شاندار واپسی اور دہلی کے کارپوریشن پر عام آدمی پارٹی کا قبضہ یعنی ان انتخابات میں نظر آنے والی تینوں پارٹیوں کے مسکرانے کے لئے کچھ نہ کچھ ہے۔ ہماچل پردیش میں جو چلن چلا آ رہا تھا وہ برقرار رہا یعنی ایک مرتبہ بی جے پی اور ایک مرتبہ کانگریس، ایسے ہی گجرات میں 27 سالوں سے جس پارٹی کے پاس اقتدار تھا اس کے سہ رخی ہوتے ہی اس پارٹی کو اب تک کی سب سے بڑی جیت حاصل ہوئی۔ ویسے دہلی میں صرف کارپوریشن کے انتخابات ہوئے تھے اور وہ بہت چھوٹے سطح کے تھے لیکن بہر حال سہ رخی ہونے کے با وجود عام آدمی پارٹی کو جیت کی اتنی بڑی کامیابی نہیں ملی، جتنی بڑی ملنی چاہئے تھی، لیکن اس میں دو رائے نہیں کہ دہلی کی کارپوریشن پر اب عام آدمی پارٹی کا راج ہی ہوگا۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ گزشتہ دو دنوں میں جو نتائج آئے ہیں ان میں سے تینوں جگہ پر بی جے پی یعنی وزیر اعظم مودی کی پارٹی ہی بر سر اقتدار میں تھی اور وہ تین میں سے دو جگہ پر ہار گئی ہے جبکہ گجرات میں وہ اقتدار بچانے میں کامیاب رہی ہے۔ دہلی میں ایم سی ڈی انتخابات پر اگر نظر ڈالیں تو یہ راجدھانی میں سیاست کا نئے دور کی شروعات ہے اور بہت امکان ہے کہ دہلی واپس تین سیاسی جماعتوں کی سیاست سے دو سیاسی جماعتوں کی سیاست کی جانب رخ کر رہی ہے اور بہت امکان ہیں کہ دہلی میں کانگریس کی واپسی ہو جائے اور عام آدمی پارٹی کی سیاست ختم ہو جائے، ٹھیک اسی طرح جیسے سال 2015 کے بعد دہلی کی سیاست سے کانگریس ختم ہو گئی جس کی وزیر اعلی یعنی شیلا دکشت کے کاموں کے اس کے مخالفین بھی تعریف کرتے ہیں۔


دہلی کی مقامی انتظامی امور کے لئے اب صرف کیجریوال کی عام آدمی پارٹی جوابدہ ہوگی اور دہلی کے ہر مسئلہ پر اب دہلی والے کیجریوال سے ہی سوال کریں گے اور ان کے لئے جواب دینا ایسے ہی مشکل ہوگا جیسے ان انتخابات میں بی جے پی کے لئے تھا۔ کوڑے سے لے کر آلودگی اور جمنا کی صفائی پر اب جواب کیجریوال کو ہی دینا ہوگا اور کیجروال کے پاس کوئی بہانہ نہیں ہوگا۔

مسلمانوں کی ناراضگی دور کرنے کے لئے عام آدمی پارٹی کی قیادت کچھ رنگ بدلے لیکن سی اے اے، این آر سی، مشرقی دہلی فسادات اور کورونا میں تبلیغی جماعت کے ساتھ اس کے رویہ سے ہونے والا درد بہت دنوں میں دور ہوگا اور اس بیچ میں اگر کوئی نیا درد مل گیا تو بہت ممکن ہے کہ لوگوں کے دلوں سے یہ پارٹی ہمیشہ کے لئے اتر جائے جیسے یوگیندر یادو، پرشانت بھوشن، کمار وشواس کے دلوں سے ہمیشہ کے لئے اتر گئی۔ آج عام آدمی پارٹی کو جو ووٹ دے رہے ہیں یہ لوگ وہی ہیں جو کبھی شیلا دکشت کا ہمیشہ دم بھرتے تھے اس لئے جو ووٹر شیلا دکشت کو چھوڑ کر نئی قیادت کے پیچھے بین بجا سکتے ہیں تو وہ کبھی بھی واپسی کر سکتے ہیں۔


دہلی کے مسلم اکثریتی علاقوں میں جس انداز سے مسلمانوں نے کانگریس کی جانب رخ کیا ہے وہ اپنے آپ میں اشارہ ہے کہ کیجریوال کو سمجھنے اور ان کی غلطیوں کو نظر انداز کرنے کی غلطی اب دہلی کے لوگ نہیں کر سکتے۔ اب دہلی والوں کی نظروں میں کیجریوال رہیں گے اور وہ چاہے مرکز سے لڑنے کی کتنی کوشش کر لیں لیکن بہت جلدی ان کی اس لڑائی سے عوام اکتا جائیں گے۔

ادھر گجرات میں سیاسی چال یا عوام کی حمایت کے ذریعہ جو بڑی اکثریت بی جے پی کو ملی ہے اس نے بھی عوام کی توقعات میں بہت اضافہ کر دیا ہے اور اب ان کو بھی اتنی بڑی تعداد کو ہر طرح سے مطمئن کرنا ایک بڑا چیلنج ہوگا۔ دہلی ہو یا گجرات عوام اب عام آدمی پارٹی اور بی جے پی سے سوال کریں گے اور ان کو جواب نہ ملنے کی صورت میں وہ متبادل کی تلاش کریں گے اور یہی ان دونوں پارٹیوں کے لئے ایک بہت بڑ اچیلنج ہوگا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔