اقتدار کے بارے میں سچ بولنا کہیں زیادہ اہم ہے: پی. سائی ناتھ

سینئر صحافی اور ’دی ہندو‘ اخبار میں دیہی امور کے سابق مدیر پی. سائی ناتھ کا کہنا ہے کہ اقتدار کے بارے میں سچ بولنا اور کہنا اقتدار سے سچ کہنے سے کہیں زیادہ اہم ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آواز بیورو

’’اقتدار سے سچ بولنا ایک بے وقوفی بھرا جملہ ہے کیونکہ اقتدار تو سچ ہمیشہ جانتی ہے۔ وہ اتنی بھولی نہیں ہے۔ اقتدار کو آپ سے کہیں زیادہ پتہ ہے اور وہ سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے کام کرتی ہے۔ زیادہ اہم ہے اقتدار اور سماج کے بارے میں سچ بولنا۔ مصنفین اور صحافیوں کے سامنے یہ ایک تاریخی عمل ہے۔‘‘ پروگریسیو رائٹرس ایسو سی ایشن کے ذریعہ دہلی میں ’امرت مہوتسو کے دور میں احتجاج‘ عنوان سے منعقد تقریب میں پی. سائی ناتھ نے یہ باتیں رکھیں۔

پی. سائی ناتھ نے کہا کہ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران ملک میں نابرابری تیزی سے بڑھی ہے۔ 2007 کے ریمن میگسیسے انعام سے سرفراز پی سائی ناتھ نے اس بات کو نشان زد کیا کہ گزشتہ 20 سال میں ملک میں ارب پتیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ لیکن ارب پتیوں کی تعداد میں اضافہ اس لیے نہیں ہوا ہے کہ انھوں نے خود دولت کمائی ہے یا ترقی کی ہے، بلکہ یہ دولت ’غریبوں سے چوس لی گئی ہے‘۔


پیپلز آرکائیو آف رورل انڈیا کے بانی مدیر پی. سائی ناتھ نے کہا کہ کورونا وبا کے دور کو غریبوں سے دولت چوسنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ انھوں نے سوال اٹھایا کہ ’’آخر وبا سے کس کا فائدہ ہوا؟ بڑی دوا کمپنیوں کا، سیرم انسٹی ٹیوٹ کے سی ای او جیسے لوگوں کا، بائجوس جیسی کمپنیوں کا...۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ فاشزم کے دو اصول ہیں، پہلا ہے اقتدار پر قبضہ اور دوسرا ہے اقتدار پر مکمل کنٹرول۔ سائی ناتھ کا کہنا ہے کہ سول سوسائٹی، مصنفین اور صحافیوں کو ایک متبادل پروگرام تیار کرنا ہوگا۔ مصنفین کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ نابرابری کے بارے میں لگاتار لکھیں۔

پی. سائی ناتھ نے کسان تحریک کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ تینوں متنازعہ قوانین کو مودی حکومت نے آخر واپس لیا۔ اس تحریک میں ہر دوسرا نعرہ اڈانی یا امبانی سے جڑا ہوا تھا۔ لیکن اس سب کے بیچ کسی نے اس بات کو سامنے نہیں رکھا کہ اڈانی اور امبانی کی ذاتی ملکیت پنجاب اور ہریانہ کی جی ڈی پی سے بھی زیادہ ہے۔ آزاد صحافیوں اور مصنفین کے کردار کی اہمیت ظاہر کرتے ہوئے سائی ناتھ نے کہا کہ چونکہ امبانی اپنے اشتہارات کے ذریعہ میڈیا پر براہ راست کنٹرول رکھتے ہیں اور ایسے میں کوئی بھی نابرابری کی بات نہیں کر رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’صرف آزاد صحافی اور مصنفین ہی اس بارے میں لکھ سکتے ہیں۔‘‘


قابل ذکر ہے کہ پروگریسیو رائٹرس ایسو سی ایشن کے ذریعہ منعقد یہ پروگرام دو دن چلے گا۔ اس سال اس پروگرام کو مشہور اردو رائٹر اور سماجی کارکن پروفیسر علی جاوید کی یاد میں منعقد کیا گیا ہے۔ علی جاوید کا گزشتہ سال انتقال ہو گیا تھا۔ اس تقریب کے پہلے دن سمینار اور ہم عصر افسانوی ادب پر تبادلہ خیال ہوا۔ پروگرام میں شمالی ہندوستان کے اہم ادیب، صحافی، نظریہ ساز اور سماجی کارکنان حصہ لے رہے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔