مودی کابینہ میں جنوری ماہ میں رد و بدل کا امکان، انتخابی ریاستوں کے لیڈران کو دی جائے گی ترجیح!
مرکزی کابینہ میں ممکنہ رد و بدل کے دوران انتخابی ریاستوں تلنگانہ، کرناٹک، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور راجستھان سے نئے چہروں کا انتخاب ہو سکتا ہے۔
2024 کے لوک سبھا انتخاب سے قبل مودی حکومت کی کابینہ میں آخری رد و بدل جلد ہونے کا امکان ہے۔ ذرائع کے مطابق مرکزی کابینہ میں اسی ماہ یعنی جنوری میں تبدیلی ہو سکتی ہے۔ اس دوران انتخابی ریاستوں کے لیڈروں کو ترجیح دی جا سکتی ہے۔ 2023 میں 9 ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام خطہ جموں و کشمیر میں بھی انتخاب ہونے والے ہیں۔ بی جے پی کرناٹک اور تلنگانہ میں ایک ہائی آکٹین لڑائی کی تیاری کر رہی ہے، جب کہ راجستھان، چھتیس گڑھ اور مدھیہ پردیش میں بھی سخت ٹکر دیکھنے کو مل رہی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ بی جے پی کی سرکردہ قیادت مدھیہ پردیش میں تبدیلی پر غور کر رہی ہے، لیکن ابھی تک اس کی تصدیق نہیں ہوئی ہے۔ لیکن رد و بدل میں تلنگانہ، کرناٹک، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور راجستھان سے نئے چہرے مرکزی کابینہ میں شامل ہو سکتے ہیں۔ بہار اور مغربی بنگال جیسی ریاستوں میں کٹوتی دیکھی جا سکتی ہے، لیکن کچھ اچھی کارکردگی والے وزرا کو برقرار رکھا جا سکتا ہے۔ کوآپریٹو محکمہ میں ایک کل وقتی وزیر بھی زیر غور ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ایک سے زیادہ پورٹ فولیو رکھنے والے کئی وزراء کو نئے وزراء کے لیے راستہ بنانا پڑ سکتا ہے۔ موجودہ وقت میں ایک سے زیادہ پورٹ فولیو رکھنے والے وزرا میں منسکھ منڈاویا، انوراگ ٹھاکر، جیوترادتیہ سندھیا، اشونی ویشنو، اسمرتی ایرانی اور نرملا سیتارمن وغیرہ شامل ہیں۔ مرکزی کابینہ میں ایک اقلیتی چہرے کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ جموں و کشمیر سے کسی شخص پر غور کیا جا سکتا ہے۔
ایک ذرائع نے کہا ہے کہ لوک سبھا انتخاب اور آنے والے دنوں میں ہونے والے اسمبلی انتخاب کو دیکھتے ہوئے بی جے پی نے فیصلہ کیا ہے کہ قومی صدر جے پی نڈا کی مدت کار کو بڑھایا جائے گا اور ریاستی صدور کو تب تک نہیں بدلا جائے گا جب تک کہ ان کی جگہ پر کسی تبدیلی کا مطالبہ نہیں کیا جاتا ہے۔ ذرائع نے کہا کہ جب تک زیادہ ضروری نہیں ہوگا، تب تک تنظیم میں کوئی بدلاؤ نہیں ہوگی۔ 16 جنوری کو قومی عہدیداروں کی میٹنگ کے بعد اس سلسلے میں رسمی اعلان کیا جائے گا۔ پارٹی صدر کی شکل میں نڈا کے تین سال رواں ماہ کے آخر میں ختم ہو رہے ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔