جامعہ فائرنگ: ’ریپبلک ٹی وی‘ نے جھوٹ بولنے پر مانگی معافی، لیکن...
ریپبلک ٹی وی نے جامعہ فائرنگ معاملہ میں جس طرح جھوٹ بولا اس نے صحافت کو شرمسار کر دیا۔ کئی گھنٹے بعد چینل کے ایڈیٹر ارنب گوسوامی نے معافی مانگی لیکن ٹی وی یہ بھی لکھتا رہا کہ ’’نہ اکساؤ بھارت کو...‘‘
30 جنوری... یعنی مہاتما گاندھی کے قتل کا دن... یعنی یومِ غم۔ اس دن باپو نے ملک کے جمہوری اقدار کے لیے اپنی جان قربان کر دی۔ لیکن باپو کے قتل کے 72 سال بعد 30 جنوری 2020 کے ہندوستان میں باپو کو خراج عقیدت پیش کرنے جا رہے طلبا کے درمیان ایک ’شرپسند‘ شخص ہاتھ میں بندوق لہراتا ہوا گھستا ہے۔ کثیر تعداد میں پولس بھی وہاں موجود ہے، طلبا چیختے ہیں ’اس کے پاس بندوق ہے‘، لیکن پولس والے ہاتھ باندھے کھڑے رہتے ہیں۔ آخر کار اس شورش پسند شخص نے گولی چلا دیا جو ایک طالب علم کے ہاتھ میں لگی۔ گولی چلنے کے بعد پولس حرکت میں آتی ہے اور اس نوجوان کو آناً فاناً گھیرے میں لے کر اسے گرفتار کرتی ہے۔ موقع پر موجود میڈیا اس سے اس کا نام پوچھتی ہے، اس کی آواز گونجتی ہے... رام بھکت...
افرا تفری کا عالم ہے۔ سبھی نیوز چینل اس واقعہ کے تعلق سے خبریں چلاتے ہیں۔ نیوز چینل بار بار کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ مارچ میں گولی چلی، ایک طالب علم کو گولی لگی۔ لیکن ایک چینل ہے جو کھل کر کہتی ہے کہ شہریت قانون کی مخالفت کرنے والوں نے گولی چلائی، شہریت قانون کی مخالفت کرنے والوں نے فائرنگ کی۔ یہ ہے نام نہاد نیشنلسٹ چینل ریپبلک ٹی وی، جس کے ایڈیٹر اِن چیف ان دنوں ویسے ہی ہوائی اڑان میں اپنی ’خاموش اداکاری‘ کے لیے موضوع بحث ہیں۔
واقعہ کو ہوئے کچھ ہی لمحے گزرے ہوں گے کہ ریپبلک ٹی نے کہنا شروع کر دیا کہ شہریت قانون کی مخالفت کر رہے طلبا نے گولی چلائی۔ چینل کے پالیٹیکل ایڈیٹر اور اینکر اتنے پر ہی نہیں رکے، انھوں نے کہنا شروع کر دیا کہ گولی چلانے والے کو عام آدمی پارٹی اور راہل گاندھی کی حمایت حاصل ہے۔ اس سے بھی آگے بڑھتے ہوئے چینل نے جلی حروف میں اپنے اسکرین پر لکھنا شروع کر دیا ’رئیل فیس آف اینٹی سی اے اے پروٹیسٹس‘ یعنی سی اے اے مخالفت کا اصلی چہرہ...۔
موقع پر موجود ریپبلک ٹی وی کے پالیٹیکل ایڈیٹر چیختے ہیں ’’راہل گاندھی اور اروند کیجریوال جواب دیں کہ آخر وہ اسے کیسے حمایت دے رہے ہیں۔ کن حالات میں وہ اس طرح کے لوگوں کی حمایت کر رہے ہیں، کیونکہ یہ سب سی اے اے کے تحت ہو رہا ہے...۔‘‘
کیا یہی سچ تھا جو ریپبلک ٹی وی پروس رہا تھا؟ چینل کا یہ رویہ نہ صرف غلط اور جھوٹ تھا، بلکہ اکسانے والا اور صحافت کو شرمندہ کرنے والا بھی تھا۔ جلد ہی اصلیت سب کے سامنے آ گئی۔ احتجاجی مظاہرہ میں گولی چلانے والا مبینہ طور پر 17 سالہ نوجوان مظاہرین میں سے نہیں تھا۔ یہ نوجوان تو بدلہ لینے، مظاہرین کو سبق سکھانے آیا تھا۔ اس نے تو یہاں آنے سے پہلے ہی اپنی منشا ظاہر کر دی تھی۔ گولی باری کے واقعہ سے کچھ دیر پہلے ہی اس نے اپنے فیس بک پوسٹ میں لکھا تھا ’’میں آزادی دے رہا ہوں...۔‘‘ اس نے یہ بھی لکھا تھا کہ ’’پورے مظاہرہ میں وہ تنہا ہندو ہے اور کوئی ہندو میڈیا وہاں نہیں ہے‘‘۔ ایک اور پوسٹ میں لکھا ’’شاہین باغ، کھیل ختم‘‘۔
لیکن یہ سب کچھ ریپبلک ٹی وی کو نظر نہیں آیا اور وہ لگاتار اس واقعہ کے لیے سی اے اے مظاہرہ کو ذمہ دار ٹھہراتا رہا۔ چینل تو یہ بھی کہتا رہا کہ آخر جب اس نوجوان نے پستول نکالی تو پولس نے کوئی کارروائی کیوں نہیں کی۔ لیکن اس کے لیے بھی ریپبلک ٹی وی نے دہلی حکومت کو ذمہ دار ٹھہرایا او راس شور شرابے والے نیوز چینل کا پالیٹیکل ایڈیٹر بھول گیا کہ دہلی پولس کی جوابدہی دہلی حکومت کو نہیں بلکہ ملک کے وزیر داخلہ کو ہے۔
اس پورے خبر کے دوران چینل پر اوپر اور نیچے بینڈ میں لکھا جاتا رہا ’یہ اصلی چہرہ ہے مخالفت کا‘، ’اینٹی سی اے اے مظاہرہ نے اپنا ایجنڈا سامنے رکھ دیا ہے‘، ’راجدھانی میں فائرنگ ہو رہی ہے‘... وغیرہ وغیرہ۔ اس واقعہ کے بعد جب کہ یہ صاف ہو چکا تھا کہ گولی چلانے والا نوجوان سی اے اے مخالف نہیں تھا، اس کا نام کیا تھا، وہ کون تھا اور آناً فاناً اس نوجوان کی عمر کی تصدیق کرنے کے لیے اے این آئی نیوز ایجنسی کے ذریعہ پیش کی گئی مارک شیٹ سامنے آنے کے بعد بھی ریپبلک ٹی وی یہی لکھتا رہا کہ ’اینٹی سی اے اے پروٹیسٹ کا اصلی چہرہ ہے یہ‘۔
شام کے وقت ریپبلک ٹی وی پر جلوہ افروز ہوئے اس کے ایڈیٹر اِن چیف ارنب گوسوامی، اور انھوں نے جوتا مارنے والے انداز میں اس غلطی کے لیے معافی مانگی۔ انھوں نے کیا کہا یہ آپ نیچے ویڈیو اور ریپبلک ٹی وی کے اس بیان میں پڑھ اور سن لیجیے۔ ان کا لہجہ بہت کچھ کہہ اور دکھا رہا ہے۔ یہاں دیکھیں ویڈیو...
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔