گجرات فساد معاملہ پر مودی کا دفاع کرنے کا اڈوانی نے کیا اعتراف

لال کرشن اڈوانی نے ایک مضمون میں گجرات فسادات کا تذکرہ کرتے ہوئے مانا ہے کہ فرقہ وارانہ تشدد کے بعد نریندر مودی سے استعفیٰ مانگنے کو لے کر وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی سے ان کے اختلافات ہو گئے تھے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آواز بیورو

اکثر اس بات کا تذکرہ ہوتا رہا ہے کہ 2002 میں گجرات میں ہوئے فرقہ وارانہ فسادات کے بعد اس وقت کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی سے استعفیٰ مانگنے کے معاملے پر اس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی اور اس وقت کے نائب وزیر اعظم لال کرشن اڈوانی کے درمیان نااتفاقی ہو گئی تھی۔ بی جے پی کے سینئر لیڈر اور موجودہ وقت میں پارٹی کے 'مارگ درشک منڈل' میں شامل لال کرشن اڈوانی نے اپنے ایک تازہ مضمون میں خود اس بات کا تذکرہ کیا ہے۔ ساق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی کے یوم پیدائش پر 'ساہتیہ امرت' میگزین کے 'اٹل اسمرت نمبر' میں اپنے مضمون 'ایک کوی ہردے راج نیتا' میں اڈوانی نے واجپئی کے ساتھ اپن سفر کے ایسے دو اقعات کا تذکرہ کیا ہے جس میں دونوں کے درمیان اختلاف پیدا ہو گیا تھا۔

اڈوانی کے مضمون کے مطابق جب فروری 2002 میں گجرات فرقہ وارانہ فساد کی آگ میں جل رہا تھا تب کئی مخالف پارٹیوں کے ساتھ ساتھ بی جے پی کی معاون پارٹیاں اس وقت کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کا استعفیٰ نامہ مانگ رہی تھیں۔ اڈوانی نے اپنے مضمون میں کہا کہ اس دباو کی وجہ سے بی جے پی اور برسراقتدار این ڈی اے کے کئی لیڈران کا ماننا تھا کہ مودی کو عہدہ چھوڑ دینا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ گجرات میں جاری فسادات کے متعلق اٹل جی کے ذہن پر بھی کافی بوجھ تھا اور مودی کے استعفیٰ کے لیے ان پر لگاتار دباو ڈالا جانے لگا تھا۔ اڈوانی نے لکھا کہ "پھر بھی اس معاملے پر میرا نظریہ بالکل الگ تھا۔ میری رائے میں مودی مجرم نہیں تھے۔ ایک سال سے بھی کم وقت پہلے وزیر اعلیٰ کا عہدہ سنبھالنے والے نریندر مودی ک ریاست میں پیدا ہوئے مشکل فرقہ وارانہ ماحول کا شکار بنانا ناانصافی ہوگی۔"

اپنے مضمون میں اڈوانی نے آگے کہا کہ اسی دوران 2002 میں گوا میں بی جے پی کی قومی ورکنگ کمیٹی کی میٹنگ میں جسونت سنگھ نے اس بارے میں اٹل جی سے پوچھ لیا کہ وہ کیا سوچتے ہیں۔ اس پر اٹل جی نے کہا کہ مودی کو کم از کم استعفیٰ کی تجویز تو دینی ہی چاہیے۔ اپنی مخالفت کا تذکرہ کرتے ہوئے اڈوانی نے کہا کہ "اس پر میں نے کہا کہ اگر مودی کو عہدہ چھوڑنے سے حالات میں کچھ بہتری ہوتی ہے تو میں چاہوں گا کہ انھیں استعفیٰ دینے کو کہا جائے لیکن مجھے نہیں لگتا کہ اس سے کوئی فائدہ ہوگا۔" اڈوانی نے اپنے مضمون میں واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس بارے میں انھوں نے مودی سے بات کر کے کہا کہ انھیں استعفیٰ کی تجویز رکھنی چاہیے اور وہ ان کی بات مان گئے۔ لیکن جب مودی نے استعفیٰ کی بات کہی تب اس کی مخالفت کی گئی اور اس طرح اس ایشو پر پارٹی کے اندر بحث کا خاتمہ ہو گیا۔

اڈوانی نے اپنے مضمون میں واجپئی سے نااتفاقی کے دوسرے واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ایک دیگر واقعہ تب کا ہے جب ایودھیا تحریک کے وقت اٹل جی کو بی جے پی کی اس تحریک سے سیدھے جڑنے پر اعتراض تھا۔ لیکن مزاج سے جمہوری ہونے کے ناطے ہمیشہ اتفاق رائے سے چلنے والے واجپئی نے اس ایشو پر پارٹی کا اجتماعی فیصلہ قبول کیا۔

غور طلب ہے کہ نریندر مودی کے وزیر اعظم بننے کے بعد سے سینئر بی جے پی لیڈر لال کرشن اڈوانی کو پارٹی میں درکنار کیے جانے کی بات اکثر ہوتی رہتی ہے۔ کئی پروگراموں میں پی ایم مودی کو سینئر لیڈر اڈوانی کو نظر انداز کرتے دیکھا گیا ہے۔ بھلے ہی اڈوانی کو آج بی جے پی نے مارگ درشک منڈل تک ہی محدود کر دیا ہو لیکن یہ بھی سچائی ہے کہ بی جے پی کی سیاست میں اڈوانی ہی نریندر مودی کے مارگ درشک یعنی رہنما رہے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔