کاس گنج: ’’مُلّو جاؤ پاکستان‘‘

کاس گنج فساد کے سلسلے میں کئی طرح کی غلط فہمی پھیلائی گئی لیکن اب علاقے کے آئی جی نے بھی اس بات کا اعتراف کر لیا ہے کہ جھگڑا غلط نعرے بازی کی وجہ سے ہوا۔

تصویر صوشل میڈیا
تصویر صوشل میڈیا
user

آس محمد کیف

کاس گنج: آج چار دن ہو گئے ہیں، لوگ گھروں میں قید ہیں، ہر طرف خاموشی کا عالم ہے، ٹھک ٹھک کی آوازیں دم گھونٹ رہی ہیں اور کسی انہونی کا اندیشہ لوگوں کے ذہن پر طاری ہے۔ کاس گنج ایسا نہیں تھا، کوئی بھی شہر ایسا نہیں ہوتا ہے، مظفر نگر بھی ایسا نہیں تھا، میرٹھ بھی نہیں اور ڈیڑھ مہینہ کرفیو جھیلنے والا بریلی بھی نہیں۔ آج مظفر نگر پچھتاتا ہے اور کل کاس گنج کو پچھتانا ہوگا۔ سب بعد میں پچھتاتے ہیں۔ مظفر نگر میں لڑکی سے چھیڑچھاڑ نہیں ہوئی تھی، کاس گنج میں ترنگا کی مخالفت نہیں ہوئی۔ اب وہاں کے آئی جی نے بھی اس بات کا اعتراف کر لیا ہے۔ انھوں نے کہا ’’جھگڑا غلط نعرے بازی سے ہوا۔‘‘ یہ نعرہ بھی ایسا تھا جس کے بعد فساد برپا ہونا ہی تھا۔ آپ خود پڑھیے اور طے کیجیے کہ نعرہ اشتعال انگیز تھا یا نہیں... ’منھ میں گلوری بغل میں پان، مُلّو جاؤ پاکستان‘۔

کل جب صبح ہوگی تو ہم رات میں کی گئی اپنی غلطیوں کے لیے سورج سے نظر بھی نہیں ملا پائیں گے۔ روشنی کا اصول ہے کہ وہ تاریکی کو ہمیشہ نہیں رہنے دیتا۔ کاس گنج میں لوگ مایوس ہیں، دل میں دہشت ہے، یہ سبھی ہندو یا مسلمان نہیں بلکہ انسان ہیں۔ ندرئی گیٹ کے راہل بھی ایک ایسے ہی انسان ہیں جن کے تین چھوٹے بچے تین دن سے دودھ کے لیے ترس رہے ہیں۔ یہاں سبزی کی سب سے زیادہ دکانیں ہیں لیکن ہنگامہ کے بعد سبزی فروش اپنی سبزیوں کو ایسے ہی چھوڑ کر بھاگ گئے تھے جن کو اب جانور اپنی خوراک بنا رہے ہیں۔ انسان تو گھروں میں قید روکھی روٹی سے ہی کام چلا رہا ہے۔

بڈو ناگر باشندہ وکیلا کا شوہر پولس سے ڈر کر بھاگ گیا ہے۔ یہاں صرف بزرگ اور بچے ہیں۔ زیادہ تر نوجوانوں کو یا تو پولس نے گرفتار کر لیا ہے یا پھر وہ روپوش ہو گئے ہیں۔ روزمرہ کی کھانے پینے کی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے وکیلا بھی ترس رہی ہے۔ امن خان بھی ان مسائل سے دوچار ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’کوئی مدد کے لیے نہیں آ رہا ہے۔ یہاں کا مسلمان جس پارٹی کو ووٹ کرتا ہے ان کا ایک لیڈر بھی ہماری خبر نہیں لے رہا ہے۔ مسلمان یہاں الگ تھلگ سے پڑ گئے ہیں۔ وہ بری طرح خوفزدہ ہیں۔‘‘

سر پر پوٹلی رکھے ہوئے نیتا راج جلی ہوئی بس کو بغور دیکھ رہے ہیں۔ بدایوں سے یہاں تک وہ ٹرین سے آ گئے ہیں اور اگلا گاؤں 10 کلو میٹر دور ہے۔ اس کے کسی رشتہ دار کی موت ہو گئی ہے۔ نیتا راج ٹی وی، اخبار، ویب سائٹ کچھ نہیں دیکھتا، اسے کچھ نہیں پتہ کہ یہاں کیا ہو رہا ہے۔ وہ تو یہاں پہنچا اور پھنس کر رہ گیا۔

اسکول کے بچے بھی فرقہ وارانہ فساد کے بعد بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ فروری میں امتحان ہے اور اسکول میں اپنا بچہ بھیجنے کی ہمت کوئی ماں نہیں رکھتی۔ اپنی ’وِکاس گاتھا‘ کا ڈھنڈورا پیٹنے والے سبھی لیڈر کہیں چھپ سے گئے ہیں۔ امن قائم کرانے کی کوششوں کے لیے وہ سامنے نہیں آ رہے۔ کچھ دانشمندوں نے انتظامیہ کی گزارش کے بعد ماحول بہتر بنانے کے لیے کوششیں کی ہیں لیکن یہ لوگ سیاست نہیں کرتے۔

کاس گنج اس وقت تڑپ رہا ہے اور اس کی گواہ یہاں پھیلی ہوئی خاموشی ہے۔ کل دن بھر پولس دوڑتی بھاگتی رہی اس لیے کوئی بری خبر سننے کو نہیں ملی لیکن رات کے وقت ایک دکان اور ایک مکان کو شورش پسندوں نے نذرِ آتش کر دیا۔ کئی لوگ جو کاس گنج آ رہے تھے اب اسٹیشن سے ہی واپس ہو چکے ہیں۔

مہلوک چندن کے گھر کی حالت بھی غمگین ہے۔ اس کی ماں کا برا حال ہو رہا ہے۔ ان کا درد ناقابل برداشت ہے اور وہ بدحواس سی ہو گئی ہے۔ وزیر اعلیٰ نے چندن کی فیملی کو 20 لاکھ معاوضہ دینے کی بات کہی ہے لیکن اس سے ایک ماں کی تکلیف دور نہیں ہونے والی۔

اس پورے ہنگامہ میں مسافروں کی پریشانی بھی تکلیف دہ ہے۔ کل دن میں ہی کچھ مسافروں پر پولس نے لاٹھی چلا دی جس سے وہ مایوس ہیں۔ ایک مسافر راگھویندر کا کہنا ہے کہ ’’ہم ہنگامہ کرنے نہیں آئے لیکن پھر بھی ہمیں پولس بھگا رہی ہے۔ شورش پسند کھلے عام گھوم رہے ہیں ان کی گرفتاری نہیں ہو رہی ہے۔‘‘

بروز اتوار اے ڈی جی پی اجے آنند اور کمشنر سبھاش چندر شرما نے پیس کمیٹی کی میٹنگ بلائی اور لوگوں میں اعتماد قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ حالانکہ پولس کے ذریعہ ایک مخصوص طبقہ پر یکطرفہ کارروائی کیے جانے کا الزام بھی عائد ہو رہا ہے۔ ریحان احمد کے مطابق پولس کے ذریعہ یکطرفہ گرفتاری ہوئی ہے اور ماحول خراب کرنے والے کھلےعام گھوم رہے ہیں جس کے سبب حالات ہنوز کشیدہ ہیں۔ کچھ لوگوں نے دونوں طبقہ میں جا کر بات کرنے کی کوشش کی ہے جن میں نیرج شرما، انجینئر عبدالرب، چاہت میاں اور ہری اوم شرما جیسے لوگ شامل ہیں۔ یہ افراد کاس گنج کو بچانا چاہتے ہیں۔ ہنگامہ میں گولی لگنے سے زخمی ہوئے نوشاد کا دعویٰ ہے کہ اسے پولس کی گولی لگی ہے۔ اس دعویٰ کے بعد سوال یہ پیدا ہو گیا ہے کہ چندن کو بھی کہیں پولس کی گولی ہی تو نہیں لگی۔ چندن کی پوسٹ مارٹم رپورٹ آ گئی ہے لیکن اسے ابھی سامنے نہیں لایا گیا ہے۔ اہم ملزم وسیم جاوید کے گھر سے پولس نے ایک پستول ملنے کا دعویٰ کیا ہے۔ جمعہ کے روزجس راہ گیر اکرم پر حملہ کر اس کی آنکھ پھوڑ دی گئی تھی اس کے گھر بیٹی پیدا ہوئی ہے۔ اکرم اب اس بات سے ہی خوش ہے کہ ان کی ایک آنکھ بچ گئی۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’اب ایک آنکھ سے ہی سہی میں بیٹی کو دیکھ تو سکتا ہوں۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 29 Jan 2018, 2:31 PM