آر بی آئی نے نوٹ بندی والے دن بتا دیا تھا کہ نہ کالا دھن ختم ہوگا نہ نقلی نوٹ
نوٹ بندی کے اعلان سے 4 گھنٹے پہلے آر بی آئی نے حکومت کے ان دعووں کو خارج کر دیا تھا کہ اس سے کالے دھن اور نقلی نوٹوں پر روک لگے گی۔ یہ انکشاف انڈین ایکسپریس نے آر بی آئی منٹس کے حوالے سے کیا ہے۔
دو سال قبل 8 نومبر 2016 کو جب وزیر اعظم نریندر مودی نے رات 8 بجے نوٹ بندی کا اعلان کیا تو انھوں نے کہا تھا کہ اس سے کالا دھن اور نقلی نوٹ کا دھندا ختم ہو جائے گا، لیکن آر بی آئی نے انہی دعووں کو خارج کر دیا تھا، وہ بھی پی ایم مودی کے اعلان سے محض چار گھنٹے پہلے۔ ’انڈین ایکسپریس‘ نے ریزرو بینک کے بورڈ کی 8 نومبر 2016 کو شام 5.30 بجے ہوئی میٹنگ کے منٹس کے حوالے سے خبر دی ہے کہ آر بی آئی نے تحریری طور پر ان دونوں باتوں پر حکومت کی تجویز کو خارج کر دیا تھا۔
اخبار نے آر بی آئی بورڈ کی 561ویں میٹنگ کا حوالہ دیا ہے کہ آر بی آئی نے اپنی میٹنگ میں حکومت کے اس مشورہ کی تعریف تو کی تھی لیکن ساتھ ہی متنبہ بھی کیا تھا کہ نوٹ بندی سے معیشت اور شرح ترقی پر منفی اثر پڑے گا۔ بورڈ کی اس میٹنگ کی کارروائی کے منٹس پر گورنر اُرجت پٹیل نے پانچ ہفتہ بعد یعنی 15 دسمبر 2016 کو دستخط کیے تھے۔ نوٹس میں ان سبھی 8 اعتراضات کا حوالہ ہے جو آر بی آئی نے تحریری شکل میں حکومت کے سامنے درج کرائی تھیں۔
جانکاری کے مطابق آر بی آئی کو نوٹ بندی سے ایک دن پہلے یعنی 7 نومبر کو حکومت کی طرف وزارت مالیات نے نوٹ بندی کی تجویز بھیجی۔ اس تجویز پر اگلے دن آر بی آئی بورڈ کی میٹنگ ہوئی جس میں ڈائریکٹرس نے صاف کہا کہ ’’نوٹ بندی سے کالے دھن اور نقلی نوٹوں کا خاتمہ نہیں ہو پائے گا۔‘‘ ان منٹس میں وزارت مالیات کے ان سبھی نکات کا حوالہ بھی ہے جو نوٹ بندی کے حق میں دیے گئے تھے۔
آر بی آئی بورڈ نے کہا تھا کہ ’’ملک میں کالا دھن نقدی کی شکل میں نہیں بلکہ سونے اور جائیداد کی شکل میں جمع ہے اور نوٹ بندی سے ان دونوں پر کوئی اثر نہیں پڑنے والا۔‘‘ ساتھ ہی آر بی آئی نے جعلی یا نقلی نوٹوں کے بارے میں کہا تھا کہ ’’جتنی نقدی چلن میں ہے اس میں 1000 اور 500 روپے کے نوٹوں کی شکل میں محض 400 کروڑ روپے کے آس پاس ہی نقلی نوٹ ہوں گے، جو کہ کل نوٹوں کا بہت معمولی سا حصہ ہے۔‘‘
اتنا ہی نہیں، آر بی آئی نے حکومت کو صاف لفظوں میں متنبہ کیا تھا کہ ملک کی معیشت اور 500 اور 1000 کے بڑے نوٹوں پر اس کے انحصار سے متعلق حکومت کا رخ صحیح نہیں ہے کیونکہ حکومت نے اس تجویز میں مہنگائی شرح کو نوٹس میں لیا ہی نہیں ہے۔ میٹنگ کے منٹس میں کہا گیا ہے کہ ’’تجویز میں اقتصادی ترقی کی شرح کو تو اصل شکل میں ظاہر کیا گیا ہے لیکن چلن میں نقدی سے جڑی شرح ترقی کو معمولی بتایا گیا ہے۔ اگر اسے مہنگائی سے جوڑیں گے تو فرق بھلے ہی بڑا نہ نظر آئے، ایسے میں تجویز کی یہ دلیل صحیح نہیں لگتی۔‘‘
آر بی آئی بورڈ نے تحریری شکل میں حکومت کو یہ بھی بتا دیا تھا کہ بڑے نوٹوں کو بند کرنے کا معیشت پر منفی اثر ہوگا۔ خاص طور سے میڈیکل اور سیاحتی سیکٹر اس سے بری طرح متاثر ہوں گے۔ اس کے بعد ہی آر بی آئی نے پرانے نوٹوں کو نجی میڈیکل اسٹور پر دوا خریدنے کے لیے اجازت دینے کی سفارش کی تھی۔ آر بی آئی نے یہ بھی کہا تھا کہ ’’نوٹ بندی کے بعد طویل سفر پر نکلے مسافروں کو پریشانیاں ہوں گی کیونکہ وہ عام طور پر اپنے ساتھ بڑے نوٹ لے کر چلتے ہیں۔‘‘
بہر حال، ان منٹس کو یہ کہہ کر ختم کیا گیا تھا کہ آر بی اائی 500 اور 1000 کے نوٹوں کو بند کرنے کے حکومت کے فیصلے کے ساتھ ہے، لیکن حکومت کو چلن میں نقدی کا استعمال کم کرنے کے لیے قدم اٹھانے چاہئیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 09 Nov 2018, 11:09 AM