آر بی آئی نے بھی نوٹ بندی کو فیل بتایا
نوٹ بندی سے متعلق مرکزی حکومت کی دلیلوں کو آر بی آئی نے زبردست دھکا پہنچایا ہے۔ اس کی ایک رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ نوٹ بندی سے نہ تو کالا دھن ملک سے ختم ہوا اور نہ ہی اکونومی کیش لیس ہوئی۔
نوٹ بندی سے نہ تو نقلی نوٹ پکڑے گئے اور نہ ہی ڈیجیٹل لین دین میں اضافہ ہوا۔ کالا دھن بھی (اگر وہ تھا) سسٹم میں آ کر سفید ہو گیا۔ یہ باتیں ظاہر ہوتی ہیں ریزرو بینک آف انڈیا (آر بی آئی) کی سالانہ رپورٹ میں جس نے نوٹ بندی کے لیے مرکزی حکومت کی پیش کردہ دلیلوں کو پاش پاش کر دیا ہے۔ ریزرو بینک کا کہنا ہے کہ 8 نومبر 2016 کو جتنی نقدی چلن میں تھی اس سے زیادہ نقدی اب چلن میں ہے۔ ساتھ ہی نوٹ بندی میں بند کیے گئے 99.3 فیصد نقدی ریزرو بینک کے پاس واپس آ گئی ہیں۔
ریزرو بینک نے بدھ کے روز 18-2017 کی اپنی سالانہ رپورٹ جاری کی جس میں دعویٰ کیا گیا کہ نوٹ بندی میں جتنی پرانی کرنسی بازار سے باہر ہوئی اس سے زیادہ اب چلن میں آ چکی ہے۔ آر بی آئی کے مطابق مارچ 2018 تک 18.03 لاکھ کروڑ روپے چلن میں آ چکے ہیں۔ گزشتہ ایک سال کے دوران اس کرنسی میں 37.7 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ آر بی آئی نے کہا ہے کہ مارچ 2017 تک جتنی کرنسی چلن میں تھی اس میں 72.7 فیصد 500 اور 2000 کے نوٹ میں تھی۔ لیکن مارچ 2018 تک یہ 80.2 فیصد ہو گئی۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے 8 نومبر 2016 کو رات 8 بجے ملک کے نام خطاب کر ملک بھر میں 1000 اور 500 روپے کے نوٹوں کو بند کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس کے اگلے دن سے ملک بھر میں بینکوں کے باہر لمبی قطاریں لگ گئی تھیں، جہاں لوگ پرانے نوٹ جمع کرا رہے تھے اور بدلے میں نئے نوٹ حاصل کرنے کی جدوجہد کر رہے تھے۔ ایسی قطاروں میں کھڑے پریشان لوگوں میں سے کم و بیش 100 لوگوں کی موت بھی ہوئی تھی۔ نوٹ بندی کا اعلان کرتے وقت وزیر اعظم نے نوٹ بندی کے لیے کچھ دلائل پیش کیے تھے۔ انھوں نے کہا تھا کہ ایسا اس لیے کیا جا رہا ہے تاکہ کالے دھن پر لگام لگے، نقلی نوٹوں پر قدغن لگے، ڈیجیٹل لین دین اور کیش لیس اکونومی کو فروغ دیا جائے، اور ساتھ ہی دہشت گردی پر بھی قابو ہو۔
وزیر اعظم کے نوٹ بندی کے اعلان کے 21 مہینے بعد آر بی آئی نے اس سے جڑے اعداد و شمار جاری کیے ہیں جس میں بتایا گیا ہے کہ 99.3 فیصد پرانے نوٹ بینکوں میں واپس آ گئے۔ جس وقت نوٹ بندی کا اعلان کیا گیا تھا اس وقت 500 اور 1000 کے نوٹوں کی شکل میں ملک میں 15 لاکھ 44 ہزار کروڑ روپے کی رقم بازار میں تھی۔ ان نوٹوں کو ممنوعہ قرار دے دیا گیا تھا۔ لیکن ریزرو بینک نے 21 مہینے لگا کر بینکوں میں واپس آئے پرانے نوٹوں کی گنتی پوری کی تو واضح ہوا کہ ان 15.44 لاکھ کروڑ میں سے 99.3 فیصد نوٹ بینکوں میں واپس آ گئے ہیں۔ یہ وہ پیسہ ہے جسے قانونی طور پر لوگوں نے بینکوں میں جمع کرایا۔ یعنی ملک میں کالا دھن صرف 0.7 فیصد ہی تھا، یا پھر کالے دھن والوں نے سانٹھ گانٹھ کر اپنے کالے دھن کو سفید کر لیا۔
پی ایم مودی نے نوٹ بندی کے لیے دلیل پیش کرتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ اس سے جعلی نوٹوں پر روک لگے گی۔ لیکن ریزرو بینک نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ جتنے نوٹ واپس آئے ان کی جانچ کے بعد ہی یہ گنتی کی گئی۔ یعنی جعلی نوٹ یا تو سسٹم میں تھے ہی نہیں اور اگر تھے بھی تو بے حد کم تھے۔ آر بی آئی نے جعلی نوٹوں پر بھی اعداد و شمار جاری کیے ہیں۔ آر بی آئی نے بتایا ہے کہ 18-2017 میں 522783 نوٹ، 17-2016 میں 762072 نوٹ اور 16-2015 میں 632926 نوٹ پکڑ میں آئے تھے۔ یعنی جعلی نوٹوں کا کاروبار اب بھی جاری ہے۔ اتنا ہی نہیں، جو جعلی نوٹ پکڑ میں آ رہے ہیں ان میں 100 اور 50 روپے کے نوٹ بھی شامل ہیں اور ان میں بالترتیب 35 فیصد اور 154.3 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ ساتھ ہی نئی سیریز کے 500 اور 2000 کے جعلی نوٹ بھی سامنے آئے ہیں۔
ریزرو بینک نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی بتایا ہے کہ بینکوں میں کتنے گھوٹالے ہو رہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ایک لاکھ یا اس سے زیادہ کے جتنے بھی گھوٹالے ہوئے ہیں ان میں سے 92.9 فیصد سرکاری بینکوں میں اور 6 فیصد پرائیویٹ بینکوں میں ہوئے ہیں۔
آر بی آئی کا کہنا ہے کہ جن ریاستوں میں انتخابات ہونے والے ہیں وہاں مالیاتی جوکھم کے امکانات زیادہ ہیں۔ سنٹرل بینک نے حکومت کو مہنگائی کے محاذ پر متنبہ کیا ہے۔ آر بی آئی نے کہا ہے کہ آنے والے دنوں میں مہنگائی اوپر جانے کا امکان ہے اور اس کے لیے تیاری اور احتیاط دونوں کی ضرورت ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔