نوٹ بندی کے بعد نئی آفت ’راشن بندی‘، ایک اور موت

تصویر بذریعہ آس محمد کیف
تصویر بذریعہ آس محمد کیف
user

آس محمد کیف

مظفر نگر: جھارکھنڈ کے سمڈیگا کے بعد اتر پردیش کے بریلی میں ایک اور موت ہوگئی۔ سمڈیگا میں آدھار کارڈ راشن کارڈ سے لنک نہیں تھا جبکہ بریلی کے فتح گنج میں خاتون کے انگوٹھے کا نشان نہیں لگایا جا سکا۔ جس حکومت پر اکثر یہ الزامات عائد ہوتے رہتے ہیں کہ وہ امیروں کی حامی پارٹی ہے اس کے دور اقتدار میں ان غریبوں کی اموات قوم کے لئے با عث شرم ہے۔

حکومت نے گزشتہ کچھ دنوں سے راشن کارڈ کے نظام میں تبدیلی کی ہے۔ اس عمل کے تحت پرانے تمام راشن کارڈ چلن سے باہر کر دئیے گئے اور راشن کا ترسیلی نظام درہم برہم ہو گیا۔ حکومت نے نیا نظام بنایا لیکن اس میں کئی طرح کی خامیاں صاف نظر آ رہی ہیں۔

حکومت کی دلیل ہے کہ نظام میں تبدیلی اس لئے کی گئی تاکہ راشن کی ترسیل میں ہو رہی ہیرا پھیری کو روکا جا سکے۔ حکومت کے مطابق نئے نظا م سے مستفیض لوگوں کو براہ راست فائدہ ملے گا ،کالا بازاری پر لگام لگائی جا سکتی ہے۔ اس کے لئے حکومت نے بجٹ میں بھی کٹوتی کر دی ہے۔ آدھار کارڈ سے لنک کر کے بایو میٹرک تکنیک (انگوٹھے کے نشان سے شناخت کرنا )سے راشن دینے کی بات کہی گئی ہے۔ لیکن زمینی سطح پر یہ تکنیک پوری طرح ناکام نظر آ رہی ہے۔ اس سے نہ تو افسران اور راشن ڈیلروں کی بدعنوانی پر روک لگ پائی اور نہ ہی اس نظام سے غریبوں کو کوئی خاص سہولت مل سکی ۔ متعدد غریب لوگ تو اسے ’راشن بندی ‘کا نام دے رہے ہیں۔ راشن ترسیل کے نظام کی اس تبدیلی کا غریب عوام پر کیا اثر پڑا اس کے لئے گاؤں ، قصبے اور شہر کے مختلف لوگوں سے بات کی گئی۔ان لوگوں سے کی گئی بات چیت درج ذیل ہے۔

مظفرنگر ضلع کی تحصیل جانسٹھ کے سب سے بڑے گاؤں کیتھوڑہ کے شمیم احمد بتا رہے ہیں کہ ’’حکومت ہوا میں فیصلے لیتی ہے۔ ایسا ہی فیصلہ نوٹ بندی کا لیا گیا تھا جس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا ۔اسی طرح راشن ترسیل کرنے کے طریقہ میں کئی طرح کی پریشانیاں ہیں ۔ ‘‘ شمیم کا کہنا ہے ’’ڈیلر کی ہٹ دھرمی اور بے ایمانی میں کوئی کمی نہیں آئی بلکہ انہوں نے بدعنوانی کے نئے طریقے ایجاد کر لئے ہیں۔ کارڈ بنانے میں بڑے پیمانے پر گڑبڑی کی گئی ہے۔موجودہ مستفیض ہو رہے افراد کا انتخاب رشوت یا دوسری کسی وجہ سے کیا گیا ہے اور پرانے ضرورت مندگان اور مستحق افراد کو کنارے لگا دیا گیا ہے۔ ‘‘

گاؤں رسول پور کے سابق پردھان اختر کہتے ہیں ’’گرام پردھان، سکریٹری اور راشن ڈیلر مل کر یہ طے کرتے ہیں کہ اہل کس کو بنانا ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ اپنے فائدے کے مطابق لوگوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ ‘‘

مقامی سماجی کارکن سنی خان بتاتے ہیں ’’ آدھار کارڈ لنک کرانے جانسٹھ (بلاک ہیڈکوارٹر )بلایا جاتا ہے۔ وہاں جانے کے لئے غریب ایک دن کی مزدوری چھوڑتا ہے۔ وہاں جانے کے بعد افسر کہتا ہے کہ خاتون خانہ کو لے کر آؤ (راشن کارڈ میں مکھیا یا سربراہ اب گھر کی خاتون ہوتی ہے)۔ ‘‘ سنی کا کہنا ہے کہ اتنا سب کچھ ہونے پر بھی کاغذات میں کمی نکال دی جاتی ہے اور غریب آدمی کو مایوسی کے سوائے اور کچھ نہیں ملتا۔

رسول پور کے ارشاد کا کہنا ہے ’’ 100 روپے دینے کے بعد کاغذ کی ساری خامیاں دور ہو جاتی ہیں۔‘‘ مجھیڑہ ایک الگ گاؤں ہے مسائل یہاں بھی ایسے ہی ہیں ۔یہاں کے رہائشی شاویز عالم کا کہنا ہے ’’ حکومت کا دعویٰ تھا کہ وہ راشن ترسیلی نظام میں ہو رہی بے ایمانی کو روک دے گی لیکن یہاں تو شروع سے لے کر آخر تک بد عنوانی ہی بد عنوانی ہے۔ اگر پیسے نہ دیں تو مستفیض شخص نااہل ہو جاتا ہے اور ناہل شخص پیسے دے کر اہل ہو جاتا ہے اور یہ سب افسر ان طے کرتے ہیں۔‘‘

قصبہ میرانپور کے رہائشی شاہ عالم نے بتایا ’’ ان کے راشن ڈیلر کا رویہ بے حد خراب ہے ۔ اگر کو ئی راشن ایجنسی رد ہوتی ہے تو اس ایجنسی کا کام بھی اسی یجنسی کو مل جاتا ہے ۔ ڈیلر نے ترسیلی افسر کے ساتھ ساز بازکرکے میرا نام نا اہلوں کی فہرست میں ڈال دیا۔ جب میں نے اس کی مخالفت کی تو 2 ہزار روپے بطور رشوت مانگے گئے ۔ میں نے جب اس بات کی شکایت سہارنپور زون کے کمشنر سے کی توترسیلی انسپکٹر کو ہٹا دیا گیا۔ اس واقعہ سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ غریبوں کو لوٹنے کا کھیل کس طرح کھلے عام ہو رہا ہے۔‘‘

بی ایس پی کے ضلع انچارج سریندر کمار کا کہنا ہے کہ ’’نوٹ بندی کو یوں تو ایک انقلابی قدم قرار دیا گیا تھا لیکن یہ ہوا ہوائی ثابت ہوا۔ اسی طرح راشن ترسیل کے نئے نظام کی وجہ سے راشن ملنا بند ہو گیا۔

راشن ڈیلروں اورافسران کے ساتھ ملی بھگت سے بد عنوانی محض اہل افراد کے انتخاب میں ہی نہیں ہے بلکہ اس کے تار کہیں اور بھی جڑتے ہیں ۔ اس حوالے سے رسول پور گاؤں کے جاوید نے بتایا ’’ ان کا راشن کارڈ نہیں بنا پھر بھی انہیں راشن مل جاتا ہے۔‘‘

ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ زیادہ تر خاندانوں میں مکھیا سب سے بڑی عمر کی خواتین ہو تی ہیں اور انگوٹھے کا نشان انہیں کو لگا نا ہو تا ہے۔ غیور میواتی کا کہنا ہے کہ ’’ ان کے پڑوس میں رہنے والی سعیدہ کی عمر 65 سال ہے وہ عرصہ دراز سے بیمار چل رہی ہیں اور گر جانے کی وجہ سے ٹانگ کی ہڈی بھی ٹوٹ گئی تھی جس کی وجہ سے وہ چلنے پھر نے سے بھی معذور ہیں ۔ لیکن راشن ڈیلر ان کا راشن دینے سے انکار کر رہا ہے اس کا کہنا ہے کہ جب تک گھر کی مکھیا یہاں آ کر انگوٹھانہیں لگائے گی راشن نہیں ملے گا۔ ‘‘اگر اس معاملے میں آپ راشن ڈیلر کو ایماندار سمجھ رہے ہیں تو یہ آپ کی بھول ہے۔ احسان سیفی کہتے ہیں ’’ راشن ڈیلر کے پاس جب کوئی خاتون راشن لینے جاتی ہے تو وہ مشین پرخاتون کا انگوٹھا لگواتا ہے ، پھر کہتا ہے کہ نیٹورک نہیں آ رہا۔ خاتون کو لگتا ہے کہ ڈیلر سچ بول رہا ہےلیکن مشین پر ریڈنگ آجاتی ہے ۔ بغیر پڑھی لکھی خاتون ایک دو دن چکر لگاتی ہے پھر تھک ہار کر بیٹھ جاتی ہے ، اگلے مہینے اسے راشن دے دیا جاتا ہے۔ پچھلی مر تبہ لگائے گئے انگو ٹھے کا جو راشن بچتا ہے راشن ڈیلر اسے بلیک کر دیا جاتا ہے ۔ ‘‘

ایسے اور بھی بد عنوانی کر نے کےطریقے ہیں ،گورو بھارتی کے مطابق’’ تمام راش ڈیلروں نے اپنے پاس لوگوں کےسینکڑوں آدھار کارڈ جمع کر رکھے ہیں ۔ جن لو گوں کے راشن کا رڈ بن چکے ہیں ان کارڈوں کو خود ہی آدھارسے لنک کر لیتے ہیں اور کارڈ ہولڈر کو ٹالتے رہتے ہیں ۔ ‘‘گور و کے مطابق ٹالنے کا یہ عمل ایک مہینے تک چلتا ہے اوراس طرح دوسرے مہینے کوئی دوسرا شخص ان کا شکار بن جاتا ہے۔ ‘‘

راشن ترسیل کا پرانا عمل غریبوں کو زیادہ اچھا لگتا ہے، مقلم پورہ کی انیتا پرجاپتی کہتی ہیں ’’ جب سے یہ حکومت آئی ہے بس لائینوں میں ہی لگی ہو ئی ہوں ۔ پہلے راشن مل جاتا تھا لیکن اب 8 دن سے جانسٹھ کے چکر کاٹ رہی ہوں۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 18 Nov 2017, 8:05 PM