ہریانہ میں قانون سازوں سے طلب کیا جا رہا تاوان، گھوٹالوں اور بدعنوانی کا دور دورہ! کانگریس نے گورنر کو سونپا مکتوب
سابق وزیر اعلیٰ اور قائد حزب اختلاف بھوپندر سنگھ ہڈا اور ریاستی کانگریس صدر چودھری ادے بھان کی قیادت میں ارکان اسمبلی نے چنڈی گڑھ میں ہریانہ کے گورنر بنڈارو دتاتریہ کو ایک مکتوب پیش کیا
چنڈی گڑھ: ہریانہ میں نظم و نسق کی ابتر صورت حال، مسلسل ہو رہے گھوٹالوں، بدعنوانی اور احتجاج کے خلاف پولیس کی بربریت جیسے مسائل کے حوالہ سے کانگریس کے ارکان اسمبلی راج بھون پہنچے۔ سابق وزیر اعلیٰ اور قائد حزب اختلاف بھوپندر سنگھ ہڈا اور ریاستی کانگریس صدر چودھری ادے بھان کی قیادت میں قانون سازوں نے چنڈی گڑھ میں ہریانہ کے گورنر بنڈارو دتاتریہ کو ایک مکتوب پیش کیا۔ قبل ازیں قائد حزب اختلاف نے گورنر کو ریاست کی صورتحال سے آگاہ کیا۔ انہوں نے بتایا کہ حکومت عوام اور عوامی نمائندوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہو رہی ہے۔ ریاست کا ہر شہری آج خود کو غیر محفوظ محسوس کر رہا ہے۔ غیر محفوظ ماحول کی وجہ سے ریاست کی ترقی ٹھہر گئی ہے، کیونکہ یہاں کوئی سرمایہ کاری کرنے کو تیار نہیں ہے، جس کی وجہ سے ریاست میں بے روزگاری تمام ریکارڈ توڑ رہی ہے۔
مکتوب کے ذریعے کانگریس کے قانون سازون نے گورنر کی توجہ ریاست میں نظم و نسق کی ابتر صورت حال، بدعنوانی اور بدامنی کی طرف مبذول کراتے ہوئے کہا گیا کہ حکومت کی نااہلی کی وجہ سے ریاست میں نظم و نسق کی صورتحال درہم برہم ہو چکی ہے۔ ہریانہ کے شہریوں کو اپنی جان و مال کی حفاظت کی فکر ہے۔ حکومت کی ناکامی پر عوام میں غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ حالات اتنے خراب ہو چکے ہیں کہ قانون سازوں سے تاوان بھی طلب کیا جا رہا ہے اور انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔
گزشتہ چند دنوں میں ریاست کے 6 قانون سازوں رینو بالا، سنجے سنگھ، سریندر پوار، کلدیپ وتس، سبھاش گنگولی، ممن خان اور ان کے اہل خانہ کو دھمکیاں دی گئی ہیں۔ شرپسندوں کے حوصلے اتنے بلند ہیں کہ انہوں نے کلدیپ وتس کے گھر میں گھس کر ان کے ملازموں اور عملے سے مار پیٹ کی اور جان سے مارنے کی دھمکی دی۔ عوامی نمائندوں کی جانب سے جرائم کے خلاف آواز کو دبانے کے لیے یہ دھمکیاں مل رہی ہیں۔ ارکان اسمبلی اور تاجروں سے تاوان طلب کرنے کے واقعات معمول بن چکے ہیں۔ قتل، عصمت دری، اغوا، چھینا جھپٹی اور کمزور طبقات کے خلاف جرائم کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ مجرم آزاد اور بے خوف ہو کر گھوم رہے ہیں اور حکومت ان کے سامنے مجبور، خاموش تماشائی اور ان کی سرپرست بنی ہوئی ہے۔
مکتوب میں منظر عام پر آنے والے گھوٹالوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ریاست میں بدعنوانی اپنے عروج پر ہے۔ حکومت کی پشت پناہی میں آئے روز نئے گھوٹالے ہو رہے ہیں۔ ہر طبقہ کرپشن کی لپیٹ میں ہے۔ ریاست کے بے روزگار نوجوانوں کو سرکاری ملازمتوں کی بھرتی کے عمل میں بدعنوانی کا سامنا ہے۔ اس حکومت میں گھوٹالوں کی فہرست لمبی ہوتی جارہی ہے۔ اب ہریانہ فارمیسی کونسل میں ایک نیا گھوٹالہ سامنے آیا ہے۔ حکومت سے وابستہ ذمہ داروں کی وجہ سے ہی ایکشن لینے کے بجائے معاملوں کو دبا دیا جاتا ہے۔ ریاستی حکومت گھوٹالوں کی حکومت بن چکی ہے۔ گھوٹالوں کی تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی بنائی گئی ہے لیکن اس کی حتمی رپورٹ جاری نہیں کی گئی ہے۔ گھپلوں میں ملوث افراد کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی۔ ارکان اسمبلی نے تمام گھوٹالوں کی سی بی آئی سے منصفانہ جانچ کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔
مکتوب میں ریاستی حکومت کی آمریت پر بھی تبصرہ کیا گیا ہے۔ کہا گیا ہے کہ بی جے پی-جے جے پی حکومت نہ صرف کسان اور مزدور مخالف ہے بلکہ جمہوریت مخالف بھی ہے۔ اسی لیے کسانوں، مزدوروں، ملازموں اور دیگر طبقات کی تحریکوں کو غیر جمہوری طریقے سے دبایا جاتا ہے۔ مشتعل افراد کے خلاف جھوٹے مقدمات درج کیے جاتے ہیں۔ کسانوں کی تحریک کے دوران پپلی، حصار، کرنال سمیت پوری ریاست میں، اس کے بعد آنگن واڑی، گیسٹ تیچروں، پی ٹی آئی اور دیگر ملازمین کے خلاف پولیس فورس کا استعمال کیا گیا۔ حال ہی میں کھیدڑ پاور پلانٹ کی راکھ گوشالہ کو دینے کے مطالبہ پر کئے جا رہے پرامن دھرنے پر بھی پولیس کی بربریت کی گئی، جس میں کسان کی موت ہو گئی لیکن حکومت نے بے گناہوں کے خلاف قتل کے جھوٹے مقدمات درج کرا دئے۔
قانون سازوں نے مکتوب کے ذریعے گورنر سے درخواست کی کہ مرنے والوں کے اہل خانہ کو مناسب معاوضہ اور ایک رکن کو سرکاری نوکری دی جائے۔ ریاستی حکومت کو تمام جھوٹے مقدمات واپس لینے کی ہدایات دی جائیں۔ حکومت محاذ آرائی کی بجائے مذاکرات اور تصفیہ کا راستہ اختیار کرے، کیونکہ جمہوریت لاٹھی اور گولی سے نہیں مکالمے سے چلتی ہے۔ اس بات کو یقینی بنانا گورنر کی ذمہ داری ہے کہ ریاست کے شہری خوف، جبر اور استحصال سے پاک پرامن ماحول میں زندگی بسر کریں۔ گورنر سے درخواست کی گئی کہ وہ حکومت کو فرائض کی انجام دہی کے لیے مناسب ہدایات جاری کریں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔