شتروگھن سنہا کی اہلیہ کے میدان میں اترنے سے راج ناتھ مشکل میں

وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کے لئے مشکلیں بڑھ سکتی ہیں کیونکہ لکھنؤ پارلیمانی سیٹ سے شتروگھن سنہا کی اہلیہ پونم سنہا وہاں سے سماجوادی پارٹی کی امیدوار ہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آواز بیورو

سماجوادی پارٹی میں کل شامل ہوئیں معروف فلم اداکار شتروگھن سنہا کی اہلیہ اور اداکارہ سوناکشی سنہا کی والدہ پونم سنہا لکھنؤ پارلیمانی سیٹ سے سماجوادی پارٹی کی امیدوار ہیں۔ پونم سنہا کا مقابلہ ملک کے وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ سے ہوگا۔ لکھنؤ پارلیمانی سیٹ بی جے پی کے لئے ہمیشہ سے بہت اہم رہی ہے اور یہاں سے سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی بھی چناؤ لڑتے رہے تھے۔

کانگریس نے یہاں سے آچاریہ پرمود کرشنم کو ٹکٹ دیا ہے اور کانگریس پر دباؤ ہے کہ وہ یہاں سے اپنا کوئی امیدوار نہ کھڑا کرے۔ اس بات کے بہت امکان ہیں کہ پونم سنہا کی وجہ سے کانگریس اپنا امیدوار واپس لے سکتی ہے اور پرمود کرشنم کو کسی اور سیٹ سے اپنا امیدوار بنا سکتی ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ پونم سنہا کے شوہر شترو گھن سنہا حال ہی میں بی جے پی کو چھوڑ کر کانگریس میں شامل ہوئے ہیں اور وہ بہار کی پٹنہ صاحب سیٹ سے کانگریس کے امیدوار ہیں۔

لکھنؤ پارلیمانی سیٹ ویسے اعلی ذات ہندوؤں کی سیٹ کے طور پر مانی جاتی ہے جس میں برہمنوں کی آبادی 10 فیصد ہے، ویش برادری کی آبادی 13 فیصد ہے، ٹھاکر 6 فیصد ہیں، کائستھ 3 فیصد ہیں یعنی اس سیٹ پر اعلی ذات اکثریتی طبقہ کی آبادی 35 فیصد ہے۔ دیگر پسماندہ ذاتوں میں اس سیٹ پر 10 فیصد یادو ہیں جبکہ دلت 20 فیصد ہیں لیکن اس میں جاٹو اور بالمیکی بالکل نہیں ہیں، کھٹیک اور پاسی ملا کر 11 فیصد ہیں۔ اس کے بعد یہاں اقلیتی طبقہ کی آبادی 25 فیصد ہے جس میں مسلمانوں کی آبادی 18 فیصد ہے باقی اقلیتوں میں عیسائی اور سکھ ہیں۔ اگر آبادی کے فیصد کو دیکھا جائے تو کائستھ، دلت اور اقلیتوں کی آبادی اتنی ہے کہ راج ناتھ کے لئے مشکلیں پیدا ہو سکتی ہیں۔ پونم سنہا کیونکہ کایستھ ہیں اس لئے ان کو کائستھ اور ویش سماج کے ایک بڑے حصہ کا ووٹ ان کو مل سکتا ہے۔ سماجوادی پارٹی سے چناؤ لڑنے کی وجہ سے 10 فیصد یادو ووٹ ان کو مل سکتا ہے۔ اقلیتوں میں اکھیلیش کی مقبولیت کی وجہ سے پونم سنہا کو زبردست فائدہ ہو سکتا ہے۔ راج ناتھ سنگھ وہاں کے قدآور رہنما ہیں، ان کی اقلیتوں خاص طور سے اہل تشیع طبقہ میں اچھی پکڑ ہونے کی وجہ سے اقلیتوں کا کچھ ووٹ ان کو ضرور مل سکتا ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ لکھنؤ کے برہمن یوگی آدتیہ ناتھ کی وجہ سے بی جے پی سے کافی ناراض ہیں اور بہت ممکن ہے کہ اگر انہوں نے حزب اختلاف کو ووٹ نہیں دیا تو وہ نوٹا کا استعمال کر سکتے ہیں یا ووٹ ہی نہ دینے نکلیں۔

سال 2014 کے عام انتخابات میں جب پورے ملک میں مودی لہر تھی اور کانگریس کافی بیک فٹ پر تھی اس وقت کانگریس کی ریتا بہوگنا جوشی (جو اب بی جے پی کی وزیر ہیں) کو دو لاکھ اٹھاسی ہزار ووٹ ملے تھے جبکہ راج ناتھ کو پانچ لاکھ اکسٹھ ہزار ووٹ ملے تھے اور سماجوادی اور بی ایس پی کو ایک لاکھ سے زیادہ ووٹ ملے تھے۔ اگر کانگریس اپنے امیدوار کا نام واپس لے لیتی ہے تو وہاں سے راج ناتھ سنگھ کے خلاف حزب اختلاف کا صرف ایک امیدوار ہوگا اور اس کے ساتھ مودی لہر بھی نہیں ہے۔ اسی کے ساتھ نوٹ بندی اور بڑھتی بے روزگاری کی وجہ سے عوام میں ناراضگی ہے اس لئے راج ناتھ سنگھ کے لئے زبردست پریشانیاں آسکتی ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 17 Apr 2019, 12:09 PM