راجستھان کے وہ 3 مسلم امیدوار جنہیں ’اپنوں‘ نے ہی لوٹ لیا
راجستھان سے اس مرتبہ 8 مسلم امیدوار کامیاب رہے لیکن اگر آپسی انتشار نہیں ہوتا تو 3 مزید مسلم امیدوار کامیاب ہو جاتے۔ گویا کہ تین مسلم امیدواروں کو اپنوں نے ہی لوٹ لیا۔
حال ہی میں پانچ ریاستوں میں ہوئے اسمبلی انتخابات کے نتائج منظر عام پر آئے۔ تین ریاستوں میں کانگریس نے کامیابی حاصل کی ہے اور مدھیہ پردیش و چھتیس گڑھ کے بعد راجستھان کے لئے وزیر اعلی کے نام کا اعلان بھی ہو چکا ہے۔ اس درمیان انتخابات میں ہار اور جیت پر تجزیہ بھی جاری ہے۔
انتخابات میں ہار اور جیت تو لگی ہی رہتی ہے۔ جب کوئی امیدوار جیت جاتا ہے تو اس کے ہر ایک قدم کو صحیح قرار دیا جاتا ہے اور جب ہار جاتا ہے تو اس پر انگلیاں اٹھنے لگتی ہیں۔ زمین پر متعدد ایسی باتیں ہوتی ہیں جن کا سیدھا اثر ہار اور جیت پر پڑتا ہے۔ راجستھان کے تین اسمبلی حلقہ انتخاب ایسے ہیں جہاں مسلمانوں میں اگر اتفاق رائے ہوتا تو یہاں بھی مسلم امیدوار کامیاب ہو کر اسمبلی پہنچتے۔ بہت ہی نزدیکی مقابلہ میں ہار جانے والے یہ تین امیدوار ہیں عماد الدین عرف درو میاں (تجارا)، ذاکر حسین (مکرانہ) اور رفیق منڈیلیا (چورو)۔
یہ تینوں امیدوار بی جے پی امیدواروں سے کافی کم فرق سے ہارے۔ دراصل ان سبھی سیٹوں پر کئی دیگر مسلم امیدوار بھی کھڑے تھے جنھوں نے بڑی تعداد میں کانگریس امیدوار کے ووٹ کاٹے۔ تیسرے یا چوتھے مقام پر رہنے والے ان امیدواروں نے جو ووٹ حاصل کئے وہ کانگریس و بی جے پی امیدوار کے درمیان شکست و فتح کے فرق سے کہیں زیادہ تھا۔ آئیے دیکھتے ہیں ان تینوں سیٹوں پر ووٹوں کی تقسیم کس طرح ہوئی۔
تجارا
تجارا سے کانگریس نے عماد الدین عرف درو میاں کو امید وار بنایا تھا ۔ انہوں نے 55011 ووٹ حاصل کئے جبکہ جیت حاصل کرنے والے بی ایس پی کے امیدوار سندیپ کمار کو 59468ووٹ حاصل ہوئے۔ اس طرح ہار جیت کا فرق محض 4457 ووٹوں کا رہا۔ خاص بات یہ ہے کہ یہاں بی جے پی امیدوار سندیپ دائما تیسرے مقام پر رہے اور انہوں نے 41335 ووٹ حاصل کئے۔ دروں میاں کی ہار کی سیدھی وجہ بنے سماجوادی پارٹی کے امیدوار فضل حسین جنہوں نے 22189 ووٹ حاصل کر لئے۔ ویسے یہاں سے دو مزید مسلم امیدوار ، بھارتیہ یوا شکتی کے امین (315 ووٹ) اور ابھینو راجستھان پارٹی کے شاہد حسین (84) بھی میدان میں تھے۔
چورو
چورو ایسی دوسری سیٹ ہے جہاں سے رفیق منڈیلیا میدان میں تھے ۔ رفیق نے 85383 ووٹ حاصل کئے اور بی جے پی کے امیدوار راجندر راٹھوڑ (87233ووٹ) سے 1850 ووٹ کے فرق سے ہار گئے۔ یہاں سے تین اور مسلم امیدوار میدان میں تھے سلیم گوجر (1347 ووٹ) اور یونس خان (1209) آزادانہ طور پر جبکہ اصغر خان (1053 ووٹ) بی ایس پی کے ٹکٹ پر میدان میں تھے۔ ان تینوں امیداروں کے ووٹوں کو ملا دیا جائے تو 3609 ووٹ ہو جاتے ہیں جو ہار جیت کے فرق 1850 سے تقریباً دو گنا ہیں۔
مکرانہ
مکرانہ بھی ایسی ہی سیٹ ہے جہاں سے کانگریس کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہے ذاکر حسین کو ان کے اپنوں نے ہی لوٹا ہے۔ ذاکر نے 85713 ووٹ حاصل کئے اور وہ 87201 ووٹ حاصل کرنے والے بی جے پی امیدوار روپا رام سے محض 1488 ووٹوں کے فرق سے ہار گئے۔ یہاں سے بی ایس پی کے ٹکٹ پر عبد العزیز (1183ووٹ) ، آزاد امیدوار منور علی (1108 ووٹ) اور عام آدمی کے ٹکٹ پر سیدہ نازنین (202 ووٹ) میدان میں تھیں۔ ان تینوں کے ووٹوں کو ملا دیا جائے تو کل 2493 ووٹ ہو جاتے ہیں جو ہار جیت کے فرق 1488 سے 1005 ووٹ زیادہ ہیں۔
اگر مندرجہ بالا اسمبلی حلقہ انتخاب میں کانگریس کے یہ تین مسلم امیدوار کامیاب ہو جاتے تو راجستھان اسمبلی میں مسلمانوں کی تعداد 11 ہو جاتی جبکہ پانچوں ریاستوں سے کل 22 مسلمان اسمبلیوں میں پہنچ جاتے۔
یوں تو ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے اور کسی امیدوار کے جیتنے اور ہارنے میں مذہب کے لحاظ سے تجزیہ نہیں کیا جانا چاہئے لیکن یہ تلخ حقیقت ہے کہ ہندوستان کے انتخابات میں مذہب تو کیا ، علاقہ ، ذات پات اور گوتر کا بھی خوب دخل رہتا ہے اور الیکشن کمیشن و سپریم کورٹ کی لاکھ ہدایات کے باوجود یہ چلن ختم نہیں ہو رہا۔
اس تجزیہ کی ضرورت اس لئے بھی پڑی کیوں کہ بی جے پی کی فرقہ پرستی پر مبنی سیاست نے گزشتہ کچھ برسوں سے مسلمانوں کو حاشیہ پر دھکیلنے کی پُر زور کوشش کی ہے۔ آر ایس ایس اور بی جے پی کے رہنماؤں نے مسلمانوں کو نہ صرف نفرت اور تشدد کا شکار بنایا بلکہ بار بار اعلانیہ یہ بھی کہا کہ انہیں مسلمانوں کے ووٹوں کی ضرورت نہیں ہے اور وہ مسلم امیدواروں کو ٹکٹ کیوں دیں جب ان میں جیتنے کی صلاحیت ہی نہیں۔
واضح رہے کہ پانچوں ریاستوں کے انتخابات میں کل 19 مسلم امیدوار کامیاب ہوئے ہیں جن میں سب سے زیادہ تعداد کانگریس کے امیدواروں کی ہے۔ راجستھان میں کانگریس کے 7 امیدواروں کو کامیابی ملی جبکہ مدھیہ پردیش میں دو اور چھتیس گڑھ میں ایک امیدوار کامیاب رہا۔ اس طرح مجموعی طور پر کانگریس کے 10 امیدوار اسمبلیوں میں پہنچ رہے ہیں۔ مسلم امیدواروں کو اسمبلی بھیجنے کے معاملہ میں دوسرا مقام حیدرآباد کی اسد الدین اویسی کی پارٹی اے آئی ایم آئی ایم کا ہے۔ اویسی کی پارٹی کے کل 7 امیدوار کامیاب ہوئے ہیں۔ تلنگانہ سے ٹی آر ایس سے ایک مسلم امیدوار کامیاب ہوا اور راجستھان میں بی ایس پی کے ایک مسلم امیدوار کو کامیابی ملی ہے۔
پانچ ریاستوں کی اسمبلی میں مسلمانوں کی آبادی کے تناسب سے حالانکہ کم مسلمان اسمبلی میں پہنچ رہے ہیں لیکن امید ہے کہ جیسے ہی بی جے پی کی منافرت بھری سیاست کا سایہ ملک سے ہٹے گا یہاں پھر سب کچھ پہلے جیسا ہو جائے گا اور مسلمانوں کو ہر شعبہ میں نمائندگی ملنی شروع ہو جائے گی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔