کورونا وبا کے درمیان ریلوے کے 13000 ملازمین کی نوکری خطرے میں!
ایک طرف کورونا وبا میں بے روزگاری عروج پر ہے،و ہیں وزارت ریل نے بڑے پیمانے پر چھنٹنی کی تیاری کر لی ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ اس سے کم از کم 13000 ریل ملازمین کی نوکری جا سکتی ہے۔
ایسے وقت میں جب ملک صدی کی سب سے تباہناک وبا کا سامنا کر رہا ہے، سب سے زیادہ روزگار دینے والے انڈین ریلوے نے 13 ہزار سے زائد عہدوں پر چھنٹنی کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ ریلوے وزارت کے ذرائع نے بتایا کہ چھنٹنی کا عمل وزارت کے ذریعہ کی گئی ملازمتوں کی مردم شماری پر مبنی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ چھنٹنی کے پیچھے دلیل یہ ہے کہ ریلوے اپنے کام کاج میں تکنیک کا استعمال بڑھانا چاہتا ہے جسے موجودہ اور پرانے ملازمین سنبھالنے میں اہل نہیں ہیں۔
ذرائع کے مطابق وزارت نے ہر ریلوے زون سے کچھ عہدوں کو سرینڈر کرنے کو کہا ہے تاکہ نئی بحالیاں پیدا کی جا سکیں۔ پتہ چلا ہے کہ ریلوے میں اندرونی طور پر چل رہے اس عمل کے بارے میں جانکاری ملنے پر کچھ یونینوں نے اس سوچ کی مخالفت کی ہے، لیکن مخالفت کے باوجود ریلوے نے ختم کیے جانے والے عہدوں کی شناخت کا عمل شروع کر دیا ہے۔ ایک دیگر ذرائع نے بتایا کہ "کچھ یونینیں اسے لے کر مظاہرہ وغیرہ کا منصوبہ بنا رہی ہیں، لیکن لاک ڈاؤن اور کورونا کرفیو کے سبب ایسا نہیں ہو پایا ہے۔ ساتھ ہی کورونا انفیکشن کے سبب بھی یونینوں نے اپنے مظاہرہ کا منصوبہ فی الحال ٹال دیا ہے۔"
غور طلب ہے کہ مرکزی حکومت کے ذریعہ یکم مارچ 2019 کو ہی جاری سالانہ رپورٹ (تنخواہ اور بھتہ) سے حاصل اعداد و شمار کے مطابق ریلوے میں تقریباً 2 لاکھ 85 ہزار 258 خالی عہدے تھے۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت ریلوے میں تقریباً 4 لاکھ عہدے خالی ہیں۔ حالانکہ ہندوستان میں بے روزگاری شرح 7٫11 فیصد تک پہنچنے کے باوجود، جو گزشتہ 30 سالوں میں سب سے زیادہ ہے، خالی عہدوں کو بھرنے کے لیے کوئی منصوبہ نہیں ہے۔
چھنٹنی کے منصوبہ کی مخالفت کرتے ہوئے سی پی ایم لیڈر ای کریم نے وزیر ریل پیوش گویل سے لیبر سینس اور عہدوں کو ختم کرنے کے عمل پر فوراً روک لگانے کا مطالبہ کیا ہے۔ انھوں نے وزیر ریل سے گزارش کی ہے کہ سبھی موجودہ بحالیوں کو جنگی سطح پر بھرنے کا کام شروع کیا جائے تاکہ ریلوے کے محفوظ نظام میں مدد ملے۔ انھوں نے اپنے خط میں کہا ہے کہ ریلوے کا یہ قدم "یقینی طور سے ریلوے کے بہتر کام کاج کو متاثر کرے گا اور ریلوے کی مکمل تباہی کا سبب بن سکتا ہے۔"
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔