راہل گاندھی اور نکولس برنس کی سیر حاصل گفتگو، کورونا اور عالمی مسائل پر تبادلہ خیال

سابق امریکی سفیر نکولس برنس نے کورونا بحران سے پیدا صورت حال کو دیکھتے ہوئے موجودہ وقت کو پوری دنیا کے لیے مشکل وقت قرار دیا اور کہا کہ ہمیں متحد ہو کر اس وبا کے خلاف لڑنا چاہیے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آواز بیورو

کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی نے کورونا بحران کے درمیان ہندوستان اور دنیا کی مشہور و معروف ہستیوں سے خصوصی گفتگو کا ایک سلسلہ شروع کیا ہوا ہے۔ اسی سلسلہ کے تحت انہوں نے آج سابق امریکی سفیر نکولس برنس سے گفتگو کی۔ نکولس برنس ایک معروف سفارتکار بھی ہیں اور ہارورڈ میں سفارتکاری اور بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر بھی ہیں۔

اس گفتگو میں اپنے خیالات کا بے باکی سےاظہار کرتے ہوئے نکولس نے اعتراف کیا کہ امریکہ اس وقت گہرے سیاسی بحران سے دو چار ہے اور پوری دنیا کی طرح ہمیں بھی کورونا نے گھیررکھا ہے۔انہوں نے راہل گاندھی کے ایک سوال کا جواب دیتےہوئے کہا کہ جب سے امریکہ کا قیام ہوا ہے، اس وقت سے نسل پرستی کا مسئلہ ہے۔ نسل پرستی کا تاریخی پس منظر بتاتے ہوئے نکولس نےکہا کہ 1619 میں غلاموں کا پہلا جہاز آیا تھا۔ ہمارے ملک میں غلامی پر خانہ جنگی ہوئی ہے۔گزشتہ 100 سالوں میں سب سے بڑے قائد مارٹن لوتھر کنگ رہے ہیں اور انہوں نے نسل پرستی کے خلاف بہت جدو جہد کی ہے۔نکولس نے کہا کہ جیسا آ پ جانتے ہیں کہ مارٹن لوتھر کنگ مہاتما گاندھی کو اپنا روحانی قائد مانتے تھے اور انہوں اپنی تحریک کو گاندھی جی کے پر امن اور عدم تشدد کے ماڈل پر ہی چلایا تھا۔ مارٹن کی وجہ سے امریکہ ایک اچھا ملک بنا اور براک اوبامہ کی شکل میں امریکہ کو پہلا افریقی امریکی صدر ملا ۔ اس سب کے باوجود نسل پرستی دوبارہ اس ملک میں دکھ رہی ہے اور جارج فلائیڈ لائیڈ کے قتل کا واقعہ سامنے آیا۔ لاکھوں امریکی پر امن احتجاج کر رہے ہیں۔ جیسے آپ کو ہندوستان میں کرنے کا حق ہے ویسے ہی ہمیں بھی ہے، لیکن امریکی صدر ان پر امن مظاہرین کے ساتھ دہشت گرد وں والا برتاؤ کرتے ہیں۔


نکولس نے راہل گاندھی سے بات چیت کے دوران اس بات کا اظہار کیا کہ ہندوستان اور امریکہ بہت سے معاملوں میں ایک ہیں کیونکہ دونوں ممالک پر برطانیہ کی حکومت تھی ۔انہوں نے کہا کہ میں نے ہندوستان کی ہمیشہ تعریف کی ہے اور ہندوستان مجھے اپنی ملی جلی تہذیب اور ثقافت کی وجہ سے اچھا لگا ہے ۔ میں امید کرتا ہوں کہ ہندوستان اپنی مسلم آبادی کے ساتھ برابری اور انصاف کے ساتھ برتاؤ کرے گا۔میں امید کرتا ہوں ہم اپنے ملک میں بھی اقلیتوں کے ساتھ ایسا ہی اچھا برتاؤ کریں گے۔

گفتگو کے د دوران راہل گاندھی نے کہا دونوں ممالک میں یکسانیت اس لئے بھی ہے کیونکہ دونوں کے نظام میں برداشت کی خوبی موجود ہے، برداشت کا رویہ ہمارے ڈی این اے میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں افسوس ہوتا ہے کہ جو قوت برداشت ان دونوں ممالک میں تھی وہ آج دیکھنے کو نہیں ملتی۔ نکولس نے راہل گاندھی کی اس بات پر مہر لگاتے ہوئے کہا کہ انہوں نے کم از کم امریکہ کے تعلق سے مرکزی مسئلہ کی نشاندہی کی ہے۔ نکولس نے کہا کہ اچھی اور امید افزا بات یہ ہے کہ امریکہ کے ہر بڑے شہر میں نسل پرستی کے خلاف مظاہرے ہوئے ۔ انہوں نے کہا کہ ہماری جمہوریت میں چینی تاناشاہی سے یہی فرق ہے کہ ہم خود کو صحیح کر سکتے ہیں۔ ہم جہاں بیلٹ باکس کی جمہوریت میں یقین رکتھے ہیں وہیں ہم سب کچھ پرامن طریقہ سے کرتے ہیں۔ہم ہندوستان کو اس کے قیام کے وقت سے پسند کرتے ہیں ۔ 1930 کی نمک تحریک سے 1947 کی آزادی تک ۔ نکولس نے کہا کہ ہندوستان کے بارے میں کوئی رائے نہیں دےسکتا لیکن امریکہ کے بارے میں کہہ سکتا ہوں کہ ہم واپس آئیں گے اور جمہوریت کو مضبوط کریں گے۔


راہل گاندھی نے گفتگو کا عمل آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ دراصل یہ تقسیم ملک کو کمزور کرتی ہے لیکن تقسیم کرنے والے اس کو ایسے پیش کرتے ہیں جیسے وہ ملک کو مضبوط کر رہے ہوں۔ انہوں نے کہا کہ جیسے امریکہ میں افریقی امریکی اور میکسیکو کے لوگوں کو بانٹتے ہیں ویسے ہی ہندوستان میں ہندو ، مسلمان اور سکھوں کو تقسیم کرتے ہیں اور جو لوگ اس تقسیم کے ذریعہ نظام کو کمزور کرتے ہیں وہ خود کو قوم پرست کہتے ہیں ۔ اس پر نکولس نے کہا کہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ یہی سب کچھ تو کرتے ہیں، وہ خود کو امریکی جھنڈے میں لپیٹ لیتے ہیں اور اعلان کرتے ہیں کہ وہ ہی تمام مسائل کو حل کر سکتے ہیں۔میں سمجھتا ہوں کہ صدر ٹرمپ ایک تاناشاہ شخصیت ہیں لیکن ہمارے ملک میں ادارہ بہت مضبوط ہے۔ ہماری فوج نے گزشتہ کئی دنوں میں اپنے بیانات سے ظاہر کر دیا ہے کہ ان کا حکومت سے اتفاق نہ کرنے کا حق ہے اور انہوں نے صاف کہہ دیا کہ وہ آئین کی پاسداری کریں گے۔ میرا ماننا ہے کہ جمہوریت کے مضبوط ہونے سے پہلے اسے کئی امتحان سے گزرنا پڑتا ہے۔نکولس نے کہا کہ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ چین اور روس میں تاناشاہی واپس آ رہی ہے۔جمہوریتوں کو کئی مرتبہ بہت تکلیف دہ دور سے گزرنا پرتا ہے۔

ہند۔امریکہ تعلقات پر نکولس نے کہا کہ ہم دونو ں ممالک صرف دنیا کی دو بڑی جمہوریتیں نہیں ہیں بلکہ ہم دنیا کی دو اہم جمہوریتیں ہیں اوردونوں ممالک میں بہت قریبی تعلقات ہیں ۔ ہندوستانی نژاد امریکیوں نےامریکی سماج میں ایک مقام بنایا ہےاور آج وہ زندگی کے ہر شعبہ میں اعلی عہدوں پر ہیں۔ 80-1970 کی دہائی میں بہت سے سائنسداں و انجینئر یہاں ٹھہرنے لگے، ہمارے اسپتالوں میں ڈاکٹر بننے لگے۔ اب ہمارے ایوان میں سینئر لیڈران، ریاستوں میں گورنرس، سینیٹر ہیں جو ہند نژاد امریکی ہیں۔ ہماری زندگی کے ہر پہلو میں ہند-امریکی شہری شامل ہیں۔ کیلیفورنیا میں ہماری کچھ اہم ٹیکنیکل کمپنیوں کے سی ای او ہند نژاد امریکی ہیں۔ اس طبقہ میں پختگی رہی ہے اور یہ دونوں ممالک کےد رمیان گہرا رشتہ ہے۔ اس لیے مجھے امید ہے کہ نہ صرف ہماری حکومتیں بلکہ امریکہ اور ہندوستان ہمارے سماج بہت گہرائی سے جڑے ہوئے ہیں اور یہ ایک بڑی طاقت ہے۔


اس تعلق سے راہل گاندھی نے کہا کہ مجھے لگتا ہے ہند-امریکی شہری دونوں ممالک کے لیے ایک حقیقی ملکیت ہے۔ یہ ایک مشترکہ ملکیت ہے۔ یہ ایک اچھا رشتہ ہے۔ انھوں نے سوال کیا کہ "اس کو لے کر آگے کیسے بڑھا جا سکتا ہے؟" جواب میں برنس نے کہا کہ ہمارا دفاعی تعلقات بہت مضبوط ہیں۔ اگر آپ خلیج بنگال اور پورے بحر ہند میں ہند-امریکہ بحریہ اور فضائیہ کے آپسی تعاون کے بارے میں سوچیں تو ہم واقعی ایک ساتھ ہیں اور مجھے اس لیے ہی مثبت امید ہے۔ میرا مشورہ ہوگا کہ ایک دوسرے کے لیے دروازے کھلے رکھیں، دونوں ممالک کے درمیان لوگوں کی آمد و رفت پر پابندی کم کریں۔ مجھے لگتا ہے کہ بہت سارے طلبا اور اعلیٰ تکنیک والے ہندوستانی کاروباری ایچ-1 بی ویزا پر امریکہ آتے ہیں۔ گزشتہ کچھ سالوں میں وہ کافی کم ہو گئے ہیں۔ ہمارے پاس اپنی معیشت کو چلانے کے لیے امریکہ میں ضرورت کے مطابق انجینئر نہیں ہیں اور ہندوستان ان انجینئروں کی فراہمی کر سکتا ہے۔ میں چاہوں گا کہ دقتیں کم ہوں۔

راہل گاندھی برنس کے سامنے یہ بھی سوال رکھا کہ "ہم خود کو چین سے الگ نہیں رکھ سکتے۔ اس سلسلے میں آپ کیا سوچتے ہیں؟" اس پر برنس نے کہا کہ میں بلاتشدد مقابلہ آرائی کے حق میں ہوں۔ ان کے پاس ایک الگ عالمی نظریہ ہے جو آمرانہ ہے۔ ہمارا جمہوری عالمی نظریہ ہے اور مجھے پورا یقین ہے کہ جمہوری نظریہ بہتر رہے گا۔ اسے حاصل کرنے کے لیے ہمیں اپنے ممالک سے شروعات کرنی ہوگی۔ مجھے لگتا ہے کہ ہندوستان اور امریکہ ایک ساتھ کام کر سکتے ہیں۔ جیسا کہ آپ چین سے لڑنے کے لیے نہیں بلکہ اسے قانون کی حکومت پر عمل کرنے کے لیے کہتے ہیں، کیونکہ ہم اس دنیا میں ایک ساتھ رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔


کورونا بحران کے تعلق سے نکولس برنس نے کہا کہ ہر ہندوستانی اور امریکی اس بیماری کی زد میں ہیں۔ میں نے بحران کے شروع میں سوچا کہ ممالک نے اپنی نااتفاقیوں کو کم کیا ہوگا اور ویکسین پر کام کرنے کے لیے ساتھ آئے ہوں گے یا اس کے یکساں ڈسٹریبیوشن پر غور کر رہے ہوں گے، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ کیونکہ ڈونالڈ ٹرمپ بین الاقوامی تعاون میں بھروسہ نہیں کرتے، وہ یکطرفہ سوچتے ہیں۔ وہ امریکہ کو دنیا میں تنہا رکھنا چاہتے ہیں۔ شی جنپنگ بھی ٹرمپ کی طرح ہیں۔ مجھے امید ہے کہ جب اگلا بحران آئے گا تو زیادہ اثردار طریقے سے ایک ساتھ کام کرنا بہتر ہوگا۔

نکولس برنس کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے راہل گاندھی نے کہا کہ "یوروپ میں بھی ایسا ہی ہے۔" انھوں نے مزید کہا کہ جرمنی، اٹلی، یو کے کے درمیان وہی تضاد ہے جو باقی دنیا میں ہے۔ اس لیے دنیا میں کچھ ایسا ہو رہا ہے جہاں لوگ اپنے آپ میں ایک ہوتے جا رہے ہیں، سمجھداری بنتی جا رہی ہے اور مجھے لگتا ہے کہ کووڈ بحران نے اس میں تیزی لا دی ہے۔

راہل گاندھی نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ کچھ دنوں قبل میں نے ہندوستان کے ایک بڑے تاجر کے ساتھ اسی طرح کی بات چیت کی تھی۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ ان کے دوستوں نے مجھ سےبات کرنے کے لیے منع کیا اور کہا کہ مجھ سے بات کرنا ان کے لیے نقصان دہ ہوگا۔ اس طرح کہا جا سکتا ہے کہ خوف کا ماحول تو ہے۔ آپ یکطرفہ فیصلہ لیتے ہیں، دنیا میں سب سے بڑا اور سخت لاک ڈاؤن کرتے ہیں۔ آپ کے پاس دہاڑی مزدور ہیں، جو ہزاروں کلو میٹر پیدل گھر لوٹتے ہیں۔ یہ تو یکطرفہ قیادت ہی ہے جہاں آپ آتے ہیں، کچھ کرتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔ یہ بہت مضر ہے۔ ایسا ہر جگہ ہے اور ہم اس سے لڑ رہے ہیں۔


گفتگو کے دوران نکولس برنس نے موجودہ وقت کو پوری دنیا کے لیے مشکل وقت قرار دیا اور کہا کہ "ایک اہم سیاسی پارٹی کی شکل میں بھی یہ مشکل وقت ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ آپ (راہل گاندھی) اب بھی پرامید ہیں؟" جواب میں راہل گاندھی نے کہا کہ "میں 100 فیصد پرامید ہوں۔ میں آپ کو بتاتا ہوں کہ میں کیوں پرامید ہوں۔ کیونکہ میں اپنے ملک کے ڈی این اے کو سمجھتا ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ ہزاروں سالوں سے میرے ملک کا ڈی این اے ایک طرح کا ہے اور اسے بدلا نہیں جا سکتا۔ ہاں، ہم ایک خراب دور سے گزر رہے ہیں۔ کووڈ ایک بھیانک وقت ہے، لیکن میں کووڈ کے بعد نئے نظریات اور نئے طریقوں کو ابھرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔ میں لوگوں کو پہلے کے مقابلے میں ایک دوسرے کا بہت زیادہ تعاون کرتے ہوئے دیکھ سکتا ہوں۔ اب انھیں احساس ہوا کہ حقیقی معنوں میں متحد ہونے کے فائدے ہیں۔ ایک دوسرے کی مدد کرنے کے فائدے ہیں۔"

راہل گاندھی نے اس تعلق سے نکولس برنس سے سوال کیا کہ "آپ کے مطابق کووڈ اقتدار کے توازن کا خاکہ کس طرح تیار کرنے والا ہے؟ آپ کے حساب سے امریکہ، چین، روس، ہندوستان کے درمیان کیا ہونے والا ہے؟ کووڈ کا کیا اثر ہوگا؟" جواب میں برنس نے کہا کہ "ماحولیاتی تبدیلی یا وبا جیسے ایشوز پر ہم نے عالمی سیاسی مقابلہ آرائی کو علیحدہ رکھا ہے۔ یہ ایشوز سبھی کے لیے وجود سے جڑے ہوئے ہیں۔ وہ دنیا کے ہر شخص یعنی 7.7 بلین لوگوں کو متحد کرتے ہیں۔ ہمیں عالمی سیاست کا مستقبل چاہیے۔ بھلے ہی ہم مقابلہ آرائی کے لیے آگے بڑھر ہے ہیں۔ لیکن ہمیں دنیا کو تحفظ فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم دنیا بھر کے لوگوں کی جانب سے ایک ساتھ کام کر سکتے ہیں اور ان لوگوں کو کچھ امید دے سکتے ہیں کہ حکومت کے طور پر ہم ان کی مدد کر سکتے ہیں۔" انھوں نے مزید کہا کہ "کووڈ کے ساتھ یہ ایک چیلنج ہے۔ گزشتہ سالوں سے ہمارے سامنے سارس، ایچ 1 این 1، ایبولا اور اب کورونا وائرس ہے۔ گزشتہ 17 سالوں میں چار وبائی امراض۔ اگلے چار یا پچن سالوں مین ہمارے پاس ایک اور وبا ہوگی۔ کیا ہم ایک عالمی طبقہ کی شکل میں زیادہ اثرانداز طریقے سے اس کا سامنا کر سکتے ہیں؟ کیا ہم ساتھ کام کر سکتے ہیں؟ یہ بڑا چیلنج ہے جسے میں کووڈ کے ذریعہ باہر آتے دیکھ رہا ہوں۔"


دنیا میں طاقت کے توازن کے تعلق سے راہل گاندھی نے سوال کیا کہ "کیا آپ کو لگتا ہے کہ یہ کسی بھی طرح سے منتقل ہونے والا ہے یا یہ وہی رہنے والا ہے؟ آپ کے حساب سے کیا ہونے والا ہے؟" جواب میں نکولس برنس نے کہا کہ ابھی بہت سے لوگ کہہ رہے ہیں کہ چین آگے نکلنے والا ہے۔ کورونا وائرس کی لڑائی میں چین جیت رہا ہے، یہ دل اور دماغ پر چھا رہا ہے۔ لیکن میں ایسا محسوس نہیں کر رہا۔ چین یقینی طور پر دنیا میں غیر معمولی طاقت ہے۔ شاید امریکہ کے فوجی، معاشی اور سیاسی طور سے ابھی تک نہیں کے برابر ہے، لیکن اس کے بارے میں کوئی سوال نہیں اٹھا رہا ہے۔ ہندوستان اور امریکہ جیسے جمہوری ممالک کے مقابلے چین کے پاس کھلاپن اور نئے نظریات کی کمی ہے۔ چین کے پاس ایک خوفزدہ قیادت ہے، خوفزدہ لوگ ہیں، جو اپنے ہی شہریوں پر شکنجہ کس کر اپنی طاقت کو بنائے رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مثلاً ژنجیانگ، اوئیگر اور ہانگ کانگ میں کیا ہو رہا ہے۔ میں ہندوستان اور امریکہ کے مستقبل کو لے کر پرامید ہوں۔ مجھے فکر ہے کہ چین کا سسٹم انسان کی آزادی اور رواداری کے لحاظ سے چینی لوگوں کی خواہشات کی تکمیل کے لیے لچیلا نہیں ہے۔ اس لیے میں آپ کی طرح جمہوریت کے حق میں ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ جمہوریت ان تجربات سے بچ جائے گا۔

اس درمیان نکولس برنس نے راہل گاندھی سے سوال کیا کہ "یہ (کورونا) سیاست کو بدل رہا ہے۔ آپ ابھی باہر نہیں جا سکتے ہیں اور لوگوں سے ہاتھ نہیں ملا سکتے۔ آپ بھیڑ سے بات نہیں کر سکتے۔ چیزوں کو آپ کس طرح سنبھال رہے ہیں؟" جواب میں راہل گاندھی نے کہا کہ میں ہاتھ تو نہیں ملا رہا لیکن ماسک اور حفاظت کے ساتھ لوگوں سے ملتا ہوں۔ کیونکہ عوامی جلسے ممکن نہیں ہیں اور یہاں یہ سیاست کے لیے آبِ حیات ہے۔ سوشل میڈیا اور زوم کے ذریعہ کافی بات چیت ہو رہی ہے۔ اس کی وجہ سے سیاسی حلقوں میں کچھ عادتیں یقینا ہی بدلنے جا رہی ہیں۔


اس دوران راہل گاندھی نے یہ بھی کہا کہ ہندوستان میں جس طرح سے لاک ڈاؤن کیا گیا تھا اس کی وجہ سے لوگوں کی سوچ بدل گئی ہے۔ کافی ڈر والا ماحول ہے۔ لوگوں کا ماننا ہے کہ وائرس ایک بہت سنگین بیماری ہے جو کہ ایک طرح سے سچ ہے، لیکن لوگ یہ مان بیٹھے ہیں کہ یہ ایک خطرناک بیماری ہے۔ وائرس کے ساتھ دھیرے دھیرے اس خوف کو بھی دور کیا جانا چاہیے۔ نکولس برنس نے امریکہ کے تعلق سے کہا کہ ہماری لڑائی سوشل ڈسٹنسنگ کو بنائے رکھنے کے لیے ہے، ہندوستان کی طرح لوگوں کو ماسک پہننے کے لیے منانے کی کوشش کرنا ہے کیونکہ امریکہ میں لوگ اسے چھوڑنا شروع کر رہے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 12 Jun 2020, 1:11 PM