کانگریس ’تپسویوں‘ کی پارٹی ہے، ہم ’ستیہ گرہی‘ ہیں، بی جے پی کی طرح ’ستا گرہی‘ نہیں: راہل گاندھی

راہل گاندھی نے کہا کہ کانگریس تپسویوں کی پارٹی ہے پجاریوں کی نہیں اور تپسیا بند نہیں ہونی چاہئے۔ ہم سب تپسیا میں خون دیں گے، یہ پورا ملک تپسویوں کا ملک ہے۔

<div class="paragraphs"><p>راہل گاندھی / ٹوئٹر /@INCIndia</p></div>

راہل گاندھی / ٹوئٹر /@INCIndia

user

سید خرم رضا

چھتیس گڑھ کی راجدھانی رائے پور میں کانگریس پلینری اجلاس کے آخری دن راہل گاندھی نے اپنے خطاب کے دوران جہاں کشمیر سے کنیا کماری تک کی ’بھارت جوڑو یاترا‘ کے اپنے تجربات کا اشتراک کیا، وہیں مرکزی حکومت، بی جے پی اور آر ایس ایس کو بھی نشانہ بنایا۔ راہل گاندھی نے کہا ’’ہم ستیہ گرہی (تحریک چلانے والے) ہیں اور آر ایس ایس اور بی جے پی والے ستا گرہی (اقتدار کے لئے جینے والے) ہیں۔‘‘

اپنے خطاب کے دوران راہل گاندھی نے کہا کہ پارلیمنٹ میں انہوں نے اڈانی پر سوال کیا اور پوچھا کہ وہ 609ویں نمبر سے دوسرے نمبر پر کس طرح پہنچے۔ آخر ملک کی خارجہ پالیسی کیا ہے جو اڈانی کو بیرون ممالک سے فائدہ پہنچتا ہے۔ انہوں نے کہا ’’میں نے پوچھا کہ مودی جی کا اڈانی سے کیا رشتہ ہے، جو سب کے سب اس کی حفاظت کر رہے ہیں۔ شیل کمپنیوں میں کس کا پیسہ لگا ہے۔ اس پر تحقیقات کیوں نہیں ہو رہی اور جے پی سی کی تشکیل کیوں نہیں کی جا رہی۔ وزیر اعظم کہہ سکتے ہیں کہ کوئی رشتہ نہیں لیکن رشتہ ہے، کیونکہ ملک کا سارا پیسہ ایک شخص کے پاس جا رہا ہے۔‘‘ راہل گاندھی نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ نریندر مودی اور اڈانی ایک ہی ہیں۔

راہل گاندھی نے کہا کہ ہمارے پوچھنے پر پوری کی پوری تقریر کو حذف کر دیا جاتا ہے لیکن ہم پوچھ رہے ہیں اور پوچھتے رہیں گے۔ انہوں نے کہا ’’جو اڈانی کی کمپنی میں کام کرتے ہیں میں ان سے کہنا چاہتا ہوں کہ وہ کمپنی ملک کے خلاف کام کر رہی ہے۔ راہل گاندھی نے کہا کہ آزادی کی جنگ بھی ایک کمپنی کے خلاف تھی اور اب بھی جنگ ایک کمپنی کے خلاف ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کے خلاف کام ہوگا تو کانگریس میدان میں آئے گی۔ راہل گاندھی نے کہا کہ کانگریس تپسویوں کی پارٹی ہے پجاریوں کی نہیں اور تپسیا بند نہیں ہونی چاہئے۔ ہم سب تپسیا میں خون دیں گے اور یہ پورا ملک تپسویوں کا ملک ہے۔

قبل ازیں، راہل گاندھی نے ’بھارت جوڑو یاترا‘ کے اپنے تجربات اور مشکلات کو بیان کیا۔ انہوں نے کہا ’’ہم نے کنیا کماری سے سری نگر تک چار ماہ تک ’بھارت جوڑو یاترا‘ کی۔ آپ نے ویڈیو میں میرا چہرہ دیکھا لیکن لاکھوں لوگ میرے ساتھ چلے تھے۔ ہر ریاست میں چلے۔ بارش میں، گرمی میں، سردی میں، ہم سب ساتھ چلے۔ بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔‘‘

انہوں نے مزید کہا ’’ابھی جب میں ویڈیو دیکھ رہا تھا تو مجھے چیزیں یاد آ رہی تھیں۔ آپ نے ویڈیو میں دیکھا ہوگا۔ پنجاب میں ایک مکینک آ کر مجھ سے ملا۔ میں نے اس کے ہاتھ پکڑے، سالوں کی تپسیا تھی اس کی۔ وہ درد جو برسوں سے تھا، جیسے ہی میں نے اس کا ہاتھ پکڑا، میں نے اس کی ہر بات سمجھ لی۔ اسی طرح لاکھوں کسانوں کے ساتھ ملانے اور گلے لگانے سے ہی یہ ایک ٹرانسمیشن سا ہو جاتا تھا۔‘‘

راہل نے کہا ’’شروعات میں بولنے کی ضرورت تھی۔ کیا کرتے ہو، کتنے بچے ہیں؟ کیا مشکلات ہیں یہ سلسلہ ڈیڑھ ماہ تک چلتا رہا۔ اس کے بعد بولنے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ جیسے ہی انہوں نے ہاتھ تھامے، گلے لگایا، خاموشی میں ایک لفظ نہیں بولا جاتا تھا لیکن جو ان کا درد تھا، ان کی محنت تھی، ایک سیکنڈ میں سمجھ جاتا تھا۔‘‘

راہل گاندھی نے کہا، آپ نے کیرالہ میں وہ کشتی کی دوڑ دیکھی ہوگی۔ اس وقت جب میں پوری ٹیم کے ساتھ کشتی میں بیٹھا تھا تو میری ٹانگ میں شدید درد تھا۔ میں اس تصویر میں مسکرا رہا ہوں لیکن اس وقت مجھے رونا آ رہا تھا۔ یہ بہت تکلیف دہ تھا۔ میں نے یاترا شروع کی اور سوچا کہ میں بہت فٹ آدمی ہوں۔ غرور تھا کہ جس طرح میں 10-12 کلومیٹر دوڑتا ہوں، اسی طرح 20-25 کلومیٹر پیدل چلنے میں کیا بڑی بات ہے! یہ ایک پرانی چوٹ تھی جو درد کرنے لگی تھی۔ یہ چوٹ کالج میں فٹ بال کھیلتے ہوئے لگی تھی۔ میں بھاگ رہا تھا جب میرا دوست پیچھے سے مجھ سے ٹکرا گیا اور میرے گھٹنے میں چوٹ لگ گئی۔ درد برسوں سے غائب تھا اور اچانک جیسے ہی میں نے یاترا شروع کی تو درد واپس آ گیا۔‘‘


انہوں نے مزید کہا ’’آپ میری فیملی ہیں اس لیے میں آپ کو بتا سکتا ہوں۔ صبح اٹھتا تھا تو سوچتا تھا کہ کیسے چلوں! پھر سوچتا تھا کہ 3500 کلومیٹر پیدل چلنا ہے، 25 کلومیٹر نہیں، کیسے چلوں گا! اور پھر کنٹینر سے اتر کر چلنا شروع کر دیتا تھا۔ لوگوں سے ملتا گیا تو 10-15 دنوں میں انا یا جسے آپ غرور کہہ سکتے ہیں، وہ سب غائب ہو گیا۔ غائب کیوں ہوا؟ کیونکہ بھارت ماتا نے مجھے یہ پیغام دیا تھا کہ دیکھو! اگر تم کنیا کماری سے کشمیر تک پیدل نکلے ہو تو اپنی انا اور غرور کو اپنے دل سے نکال دو، ورنہ مت جاؤ! مجھے یہ سننا پڑا، میں اتنا مضبوط نہیں تھا کہ یہ نہ سن سکوں اور آہستہ آہستہ میں نے دیکھا کہ میری آواز خاموش ہو گئی۔ پہلے میں کسان سے ملتا تھا، میں اسے اپنے علم سے سمجھانے کی کوشش کرتا تھا، میرے پاس جو بھی تھوڑی بہت معلومات ہوتی، زراعت کے بارے میں، منریگا کے بارے میں، کھاد کے بارے میں، میں کہنے کی کوشش کرتا۔ آہستہ آہستہ یہ سلسلہ ختم ہو گیا۔ سکون ہو گیا اور خاموشی سے سننے لگا۔ یہ تبدیلی رفتہ رفتہ آئی اور جب میں جموں و کشمیر پہنچا تو بالکل خاموش ہو گیا۔

راہل گاندھی نے کہا ’’ماں ڈائس پر بیٹھی ہیں، یہ 1977 کی اس وقت کی بات ہے جب میں بچہ تھا۔ الیکشن آیا، مجھے الیکشن کا علم نہیں تھا۔ ایک دن گھر میں عجیب سا ماحول تھا۔ میں ماں کے پاس گیا، میں نے ماں سے پوچھا کیا ہوا ماں؟ ماں نے کہا کہ ہم گھر چھوڑ رہے ہیں۔ تب تک میں سمجھتا تھا کہ وہ ہمارا گھر ہے۔ میں نے ماں سے پوچھا کہ ماں ہم اپنا گھر کیوں چھوڑ رہے ہیں؟ پہلی بار میری ماں نے مجھے بتایا کہ یہ گھر ہمارا نہیں ہے۔ یہ سرکاری گھر ہے، اب ہمیں جانا ہوگا۔ میں نے ماں سے پوچھا کہ ہم نے کہاں جانا ہے تو انہوں نے کہا پتہ نہیں کہاں جانا ہے؟ میں حیران رہ گیا۔ اب 52 سال ہو گئے اور میرے پاس اب بھی گھر نہیں ہے۔ ہمارے خاندان کا گھر، وہ الہ آباد میں ہے۔ وہ بھی ہمارا گھر نہیں ہے۔ میں 12 تغلق لین میں رہتا ہوں لیکن یہ میرے لیے گھر نہیں ہے۔‘‘

راہل گاندھی نے کہا، "جب میں کنیا کماری سے روانہ ہوا تو میں نے خود سے پوچھا کہ میری ذمہ داری کیا ہے؟ اب میں ہندوستان کو دیکھنے کے لئے نکلا ہوں، ہزاروں لاکھوں لوگ نکلے ہیں، میری کیا ذمہ داری ہے؟ میں نے تھوڑی دیر کے لئے سوچا تو میرے ذہن میں ایک خیال آیا۔ میں نے اپنے دفتر کے لوگوں کو بلایا جو میرے ساتھ چل رہے تھے۔ میں نے ان سے کہا دیکھو! یہاں ہزاروں لوگ چل رہے ہیں، دھکے لگیں گے، لوگوں کو چوٹ لگے گی، کیونکہ بہت بھیڑ ہے۔ میرے 20-25 فٹ تک جو خالی جگہ جہاں ہندوستان کے لوگ ہم سے ملنے آئیں گے وہ ہمارا گھر ہے، اگلے چار ماہ تک یہ گھر ہمارے ساتھ چلے گا۔ صبح چھ سے شام سات بجے تک ہمارے ساتھ چلے گا۔ میں نے سب سے کہا کہ جو بھی اس گھر میں آئے گا خواہ وہ امیر ہو، غریب ہو، بوڑھا ہو، جوان ہو، بچہ ہو، کسی بھی مذہب کا ہو، کسی بھی ریاست کا ہو، ہندوستان سے باہر کا ہو، جانور ہو، اسے یہ محسوس ہونا چاہیے کہ آج وہ اپنے گھر آیا ہے۔ اور جب وہ یہاں سے جائے تو اسے یوں محسوس ہونا چاہیے کہ وہ اپنا گھر چھوڑ کر جا رہا ہے۔‘‘

راہل گاندھی نے کہا ’’یہ ایک چھوٹا سا خیال تھا، مجھے اس کی گہرائی اس وقت سمجھ نہیں آئی تھی لیکن جس دن میں میں نے اس پر عمل کیا یاترا بدل گئی۔ جادو سے بدل گئی۔ لوگ مجھ سے سیاست پر بات نہیں کر رہے تھے۔ میں نے کیا کیا سنا وہ میں آپ کو بتا بھی نہیں سکتا۔ میں آپ کو بتا نہیں سکتی کہ ہندوستان کی خواتین نے اس ملک کے بارے میں کیا کہا۔ میں بتا نہیں سکتا کہ نوجوانوں کے دل میں کیا درد ہے اور وہ کتنا بوجھ اٹھا رہے ہیں۔‘‘


کانگریس کے سابق صدر نے کہا ’’میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں۔ ہم صبح سویرے چل رہے تھے، ایک خاتون بھیڑ کے کنارے کھڑی تھی، اس نے جھجکتے ہوئے ہوئے میری طرف دیکھا۔ جیسے ہی میں نے اسے دیکھا، اسے بلایا، وہ میرے پاس آئی، میں نے اس کا ہاتھ تھاما، میں نے فوراً جان لیا کہ اس کے ساتھ کچھ غلط ہوا ہے۔ میں جس طرح پرینکا کا ہاتھ تھامتا ہوں اسی طرح اس کا ہاتھ بھی تھاما، یوں محسوس کیا کہ وہ میری بہن ہے۔ میرا ہاتھ پکڑتے ہوئے اس نے کہا، راہل جی! میں آپ سے ملنے آئی ہوں، میں نے پوچھا کیا بات ہے؟ اس نے کہا کہ میرا شوہر مجھ سے مار پیٹ کر رہا ہے۔ میں نے پوچھا اس نے ایسا کب کیا، اس نے کہا کہ میں ابھی گھر جان بچا کر آئی ہوں، تو میں نے کہا کہ پولیس کو بلاؤ۔ اس پر اس نے کہا کہ پولیس کو مت بلائیے میں دوبارہ مار کھانے کے لئے جا رہی ہوں۔ میں صرف آپ کو بتانا چاہتی تھی کہ میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے! وہ اس طرح کی اکیلی عورت نہیں ہے، اس ملک میں ایسی لاکھوں اور کروڑوں عورتیں ہیں جو ظلم کا شکار ہیں۔ میں نے یہ سب یاترا کے دوران سنا، ہم آہستہ آہستہ اس گھر کو جموں سے کشمیر تک لے کر گئے۔‘‘

راہل گاندھی نے کہا ’’میرا خاندان برسوں پہلے جموں و کشمیر سے آیا تھا۔ میں نے سوچا کہ کتنا عجیب ہے کہ میں اس چھوٹے سے گھر کو کنیا کماری سے کشمیر لے جا رہا ہوں۔ مجھے یوں لگا رہا تھا کہ میں اپنے گھر واپس جا رہا ہوں۔ ہم کشمیر میں داخل ہوئے۔ وادی سے پہلے وہاں برف ہے، دھوپ ہے۔ ہزاروں لوگ ہمارے ساتھ چل رہے تھے۔ ایک لڑکا میرے پاس آیا، میرے ساتھ چل پڑا، وہ مجھے لے گیا اور کہا کہ راہل جی مجھے آپ سے ایک سوال پوچھا ہے۔ میں نے پوچھا کیا؟ اس نے کہا کہ جب کشمیر کے لوگ غمگین ہوتے ہیں، جب ہمارا دل دکھتا ہے تو باقی ہندوستان کے لوگ کیوں خوش ہوتے ہیں؟ میں نے کہا کہ غلط فہمی میں ہو، میں کنیا کماری سے یہاں آیا ہوں، یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ کروڑوں لوگ ایسے نہیں ہیں اور وہ لوگ ہر ہندوستانی کے درد کے ساتھ کھڑے ہیں۔ چنیدہ لوگ ہیں جو خوش ہوتے ہوں گے، ہزاروں میں ہوں گے لیکن ہندوستان میں کروڑوں لوگ ہیں۔ لڑکے نے مجھ سے آنکھ ملا کر کہا کہ راہل جی آپ نے مجھے خوش کر دیا ہے۔ لڑکے سے بات کرتے ہوئے مجھے چاروں طرف ترنگا نظر آ رہا تھا۔

راہل گاندھی نے کہا ’’وادی کشمیر میں داخل ہوتے ہی ہی بادل چھا گئے۔ سورج غائب ہو گیا ہے۔ وہاں پولیس والوں نے بتایا کہ دو ہزار لوگ آئیں گے۔ اندر داخل ہوتے ہی 40 ہزار لوگ وہاں آ گئے۔ پولیس والوں نے جیسے ہی 40 ہزار لوگوں کو دیکھا تو رسی چھوڑ کر بھاگ گئے۔ تمام پولیس والے غائب ہو گئے۔ میں دیکھ رہا تھا کہ ہندوستان کے سب سے زیادہ دہشت گردی سے متاثرہ علاقے میں چاروں طرف ترنگا دکھائی دے رہا ہے۔ ترنگا کون اٹھائے ہوئے تھا؟ کشمیر کے لوگوں نے ترنگا اٹھایا تھا، ہم صرف 125 مسافر تھے۔ ہزاروں کشمیریوں نے ترنگا اٹھا رکھا تھا۔ پورے کشمیر میں ایسا ہی منظر دیکھنے کو ملا۔ سی آر پی ایف والے کہہ رہے تھے کہ ہم نے اپنی زندگی میں ایسا نہیں دیکھا۔

کانگریس کے سابق صدر نے کہا ’’پھر میں آیا اور پارلیمنٹ میں وزیر اعظم کی تقریر سنی۔ کہتے ہیں کہ میں نے بھی جا کر لال چوک پر ترنگا لہرایا تھا۔ میں سن رہا تھا، میں نے سوچا، دیکھئے، ہندوستان کے وزیر اعظم کو بات سمجھ نہیں آئی! نریندر مودی جی نے بی جے پی کے 15-20 لوگوں کے ساتھ جا کر لال چوک پر ترنگا لہرایا تھا۔ بھارت جوڑو یاترا میں لاکھوں کشمیری نوجوانوں نے ہاتھوں میں ترنگا تھام رکھا تھا۔ ہم نے نوجوانوں کے دلوں میں ہندوستان اور قومی پرچم کا احساس ڈال دیا، جبکہ آپ نے جموں و کشمیر کے لوگوں کے دلوں سے ترنگا کا احساس نکال دیا۔ یہی فرق ہے آپ میں اور ہم میں۔ ہم نے کسی کو آنے کے لئے نہیں کہا، وہ اپنے آپ آ گئے۔ ہزاروں لاکھنوں لوگ ہاتھ میں ترنگا اٹھا کر چلے۔ کیوں چلے، میں آپ کو بتاتا ہوں۔ کشمیری نوجوانوں نے مجھے کہا، راہل جی آج ہم آپ کے ساتھ اس لئے ترنگا لے کر چل رہے ہیں کیونکہ ہم نے آپ پر بھروسہ کیا ہے۔ آپ نے ہمارے لیے اپنا دل کھول دیا ہے، ہم آپ کے لیے دل کھول دیں گے۔


راہل گاندھی نے مرکز کی مودی حکومت کو نشانہ بناتے ہوئے کہا ’’میں آپ کو حکومت کی سوچ کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں۔ کچھ دن پہلے ایک انٹرویو میں ایک وزیر نے کہا تھا کہ چین کی معیشت ہندوستان کی معیشت سے بڑی ہے۔ ہم ان سے کیسے لڑ سکتے ہیں۔ جب انگریزوں نے ہم پر حکومت کی تو کیا ان کی معیشت ہم سے چھوٹی تھی! اس کا مطلب ہے کہ ان سے لڑو جو آپ سے کمزور ہے اور اس سے مت لڑو جو آپ سے زیادہ طاقت ور ہے! اسے بزدلی کہتے ہیں۔ یہ ساورکر کا نظریہ ہے کہ اگر آپ کے سامنے کوئی مضبوط شخص ہے تو اس کے سامنے اپنا سر جھکا دو۔ آخر میں راہل گاندھی کانگریس صدر کھڑگے سے کہا کہ وہ ان تپسویوں (کانگریسیوں) کے لئے پروگرام مرتب کریں تاکہ وہ آگے آکے کام کر سکیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 26 Feb 2023, 2:50 PM